Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شمالی کوریا کا کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا تجربہ

 
        جنوبی کوریا کے چیف آف سٹاف نے کہا ہے کہ شمالی کوریا نے ہفتے کو کم فاصلے تک مار کرنے والے نامعلوم میزائل کا تجربہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے جنوبی کوریا کے چیف آف سٹاف کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی کوریا نے ہفتے کی صبح اپنے مشرقی ساحلی علاقے ونسان سے بحیرہ جاپان کی جانب یہ میزائل فائر کیا۔
جنوبی کوریا اور امریکہ میزائل تجربے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ 
اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ جنوبی کوریا کے چیف آف سٹاف کے شمالی کوریا کے میزائل تجربے سے متعلق بیان کے بعد امریکہ پیانگ یانگ کی نقل و حرکت پر نظر رکھے گا۔
ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری سارہ سینڈرز کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے ہفتہ کو کی گئی کارروائی سے باخبر ہیں، ہم لازمی طور پر اس معاملے کی نگرانی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کا جنوبی کوریا  کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کے حوالے سے کہنا ہے کہ میزائل تجریہ شمالی کوریا کے امریکہ کے ساتھ تعطل کا شکار مذاکرات کے حوالے سے بڑھتی ہوئی مایوسی کی نشاندہی کرتا ہے۔ 
جوائنٹ چیف آف سٹاف کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے میزائل نے بحیرہ جاپان کی طرف 70 سے 200 کلومیٹر تک فاصلہ طے کیا۔
نومبر 2017 میں بین البراعظمی میزائل تجربے کے بعد شمالی کوریا کا اس نوعیت کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ اسی سال شمالی کوریا کی جانب سے طاقتور ہتھیاروں کے کئی تجربے کیے گئے جس کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت ردعمل دیا تھا۔
شمالی کوریا کی جانب سے یہ میزائل تجربہ ایسے وقت میں کیا گیا جب پیانگ یانگ اور واشنگٹن کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ ان مذاکرات کے ذریعے امریکہ کی کوشش ہے کہ شمالی کوریا کو ایسے جوہری بموں کے حصول سے روکا جائے جو امریکہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کے پاس قابل استعمال کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں لیکن ابھی اسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو صحیح اہداف تک پہنچانے کے لیے مزید تجربات کی ضرورت ہے۔
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے 2017 میں امریکہ کے ساتھ سفارت کاری کے تناظر میں کہا تھا کہ وہ بین البراعظمی میزائلوں کے تجربات نہیں کرے گا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کا حالیہ میزائل تجربہ اس کے خود پر عائد کردہ پابندی کی خلاف ورزی نہیں بلکہ مذاکرات کے تعطل کے بعد امریکہ سے اپنی ناراضی کا اظہار کرنا ہے۔ 
 

شیئر: