’آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہم نے نہیں دینی‘
’آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہم نے نہیں دینی‘
پیر 13 مئی 2019 3:00
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے ملک اور فوج کے لیے اچھے اثرات نہیں ہوتے۔
اردو نیوز سے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ گو کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت کی مدت میں توسیع کا فیصلہ اپوزیشن نہیں کرے گی لیکن ماضی میں جب بھی فوج کے سربراہان کو توسیع ملی اس کے ملک پر اچھے اثرات نہیں ہوئے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اس سال نومبر میں اپنے عہدے کی تین سالہ مدت پوری کر لیں گے۔
ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ان کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع دی تھی۔ حال ہی میں مسلم لیگ نواز کی عملی باگ ڈور سنبھالنے والے شاہد خاقان عباسی سے جب اس حوالے سے ان کی رائے پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ’ نہ ہم نے (توسیع) دینی ہے نہ اس کے بارے میں کوئی رائے دینی چاہیے لیکن ماضی میں جب بھی ایکسٹینشنز ہوئی ہیں اس کے اثرات ملک پر اچھے نہیں ہوئے۔ نہ ادارے پر اچھے (اثرات) ہوتے ہیں نہ ملک پرـ‘
’ڈیلوں سے ملک یہاں تک پہنچا ہے‘
مسلم لیگ نواز کی طرف سے ممکنہ ڈیل کے سوال پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ان کی جماعت کی طرف سے ڈیل کے لیے معذرت کے ساتھ انکار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’آپ اپنے ملک کے اندر ڈیلیں کرتے ہیں ۔ ڈیلوں سے ملک یہاں تک پہنچا ہے۔ ڈیل کس چیز کے لیے کی جائے ۔ ہم منہ بند کرلیں؟‘
شاہد خاقان کے مطابق اگر نواز لیگ نے معاملات طے کرنا ہوتے تو بہت پہلے طے ہو جاتے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاستدان اس طرح ڈیل کے ذریعے معاملات طے نہیں کرتے ۔ اگر چپ رہنا ہے تو سیاست کے بجائے کچھ اور کام کر لیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ملک میں اپوزیشن کی آواز کو دباتے ہیں تو ملک تباہی کی طرف جاتا ہے اس بات کو یاد رکھیں۔ ’ہماری طرف سے کوئی ڈیل نہیں ہے معذرت کے ساتھـ‘
’فوجی عدالتوں میں توسیع کا جواز دینا ہوگا‘
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کی منظوری کا قانون اچھا قانون نہیں ہے کالا قانون ہے لیکن اس کی ضرورت تھی اس لیے نواز لیگ کی حکومت اس قانون کو لے کر آئی اور پاس کروایا مگر اس میں سن سیٹ کلاز بھی رکھی گئی تھی جس کا مطلب تھا اس قانون کو خود بخود ایک مدت بعد ختم ہو جانا ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس وقت مخصوص حالات تھے دہشت گردی بڑھ گئی تھی اور یہ ممکن نہ تھا کہ عام عدالتوں سے ان دہشت گردوں کو سزا دے پاتے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو پارلیمان میں بتانا ہوگا کہ اب کیوں فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے۔ ’ٓآج کیا ضروت ہے؟ دہشت گردی پر تو کنٹرول ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت بتائے کہ کیا اب عام عدالتوں سے کام نہیں چلایا جا سکتا؟ حکومت بتائے گی تو اس پر ووٹنگ کا فیصلہ کیا جائے گا۔
’مریم نواز جب ضرورت پڑے گی بولیں گی‘
اس سوال پر کہ پارٹی کی قیادت میں حالیہ تبدیلیوں کے دوران مریم نواز کی بطور نائب صدر تعیناتی کا فیصلہ کس نے کیا شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ ان (مریم نواز) کا فیصلہ تھا کہ وہ عملی سیاست میں کب آئیں گی ۔ اب انہوں نے خود رضامندی ظاہر کی اور وہ پارٹی کی نائب صدر ہیں۔
مریم نواز کی خاموشی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’سیاست سرکس نہیں ہوتی کہ ہر روز تماشا لگا رہے۔ جب وہ بات کرتی تھیں تو کہتے تھے بات کیوں کرتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اب بولنے کے لیے پارٹی کی پارلیمانی پارٹی موجود ہے لیکن جب ضرورت پڑے گی مریم نواز بولیں گی۔
’حکومت مخالف تحریک فی الحال مشورہ نہیں ہوا‘
شاہد خاقان عباسی سے پوچھا گیا کہ کیا عید کے بعد وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ملک کر حکومت مخالف تحریک چلائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک کا موقع محل ہوتا ہے ۔ وہ اپنے وقت پر چلے گی۔ مشورہ ہو گا ۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ فی الحال اس کا مشورہ نہیں ہوا۔‘
’گرفتاری کے لیے تیار‘
سابق وزیراعظم ایل این جی کیس میں نیب کے زیر تفتیش بھی ہیں۔ اپنی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ گرفتاری کے لیے تیار ہیں اس سے قبل بھی انہوں نے گرفتاریاں دیکھی ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ان کے خلاف نیب کیسز کی حثییت وہ جانتے ہیں اور پورا پاکستان بھی ۔ ’نیب احتساب کا ادارہ نہیں بلکہ سیاسی دباؤ کا ادارہ ہے ۔ میں بات نہیں کروں گا تو نیب مجھے نہیں پوچھے گا لیکن جب بات کروں گا تو پوچھیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نیب سیاستدانوں کو دبانے کے لیے بنایا گیا تھا اور آج بھی اسی مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بھی نیب نے 70 دن تک گرفتار رکھا مگر آج تک یہ نہ بتا سکی کہ الزام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ عید سے قبل بھی نیب کی گرفتاری کے لیے حاضر ہیں۔