Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتہا پسند ہندوؤں نے تھیٹر کو 'میدان جنگ' کیسے بنایا؟

انتہا پسند ہندو بی جے پی پر تنقید کرنے والوں کو ملک دشمن کہتے ہیں.
رواں برس فروری میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں نیم فوجی دستوں پر خود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 40 فوجی مارے گئے۔
اس واقعہ کے پانچ روز بعد انڈین ڈرامہ نگار اور ڈائریکٹر ابھیشک مجمدار کو کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز کے رویے پر بنائے گئے ڈرامے کی سکریننگ منسوخ کرنے پر مجبور کیا گیا۔
خبر رساں ادارے ’رؤئٹرز‘ کے مطابق یہ ڈرامہ 19 فروری کو انڈیا کے شہر جے پور میں دکھایا جانا تھا مگر پولیس نے انتظامیہ کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ اگر پولیس مداخلت نہ کرتی تو انتہا پسند ہندو یہ دھمکی دے چکے تھے کہ وہ ڈرامے کے کرداروں کو زبردستی سٹیج سے نیچے اتار دیں گے۔
ہندو انتہا پسندوں نے کہا کہ ابھیشک مجمدارغیر محب وطن اور ملک دشمن ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق ڈرامہ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے انہیں یہ مقام چھوڑنے پر مجبور کیا گیا کیونکہ مشتعل لوگوں کا ایک گروہ وہاں اکھٹا ہو گیا تھا۔ انتظامیہ کے مطابق انہوں نے یہاں سے بھاگنے کے لیے پچھلے دروازوں اور مین روڈ کے بجائے چھوٹی سڑکوں کا انتخاب کیا تا کہ وہ شرپسندوں کے حملے سے بچ سکیں۔
ڈرامے کے اداکار اشواتھ بھٹ نے ’رؤئٹرز‘ کو بتایا کہ ’ایسا نہیں کہ لوگوں کو ہمارا ڈرامہ پسند نہیں تھا، انھوں نے مایوسی کا اظہار کیا اور چلے گئے بلکہ شہر بھر ہمیں تلاش کیا جا رہا تھا۔‘
متعدد ڈرامہ نگار، موسیقار، فلم ساز اور مزاح نگار یہ شکایت کرتے ہیں کہ انتہا پسند ہندوؤں کے دباؤ اور دھمکیوں کی وجہ سے ان کا کام سنسریا منسوخ کیا جا چکا ہے۔ 2014 میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد ہندو انتہا پسندوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
ان فنکاروں کو ڈر ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں اگر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو اظہار رائے کی آزادی پر مزید پابندیاں لگ جائیں گی۔
دوسری طرف زیادہ تر سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ 23 مئی کو انتخابات کے نتائج آنے کے بعد مودی ایک بار پھر وزیر اعظم بن جائیں گے۔
’رؤئٹرز‘ نے21 ڈرامہ نگاروں، موسیقاروں اور مزاحیہ فنکاروں کا انٹرویو کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے کم از کم 15 لوگ حکام اور انتظامیہ کی جانب سے ان سوالات کا سامنا کر چکے ہیں کہ کیا ان کے کام میں سیکولرازم، مذہبی عدم رواداری اور مودی کے فیصلوں کے حوالے سے تو بات نہیں کی گئی؟   
تاہم بی جے پی کے رہنما ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کی جماعت اختلاف رائے کے حوالے سے متعصب یا تنگ نظر ہے۔
جے پور میں ’رؤئٹرز‘ نے ان تین پولیس افسران سے بھی بات کی جو ابھیشک مجمدار کے ڈرامے کے مقام پر گئے تھے۔ تینوں نے کہا کہ یہ ڈرامہ دکھانے کا ٹھیک وقت نہیں تھا کیونکہ اس کا موضوع سالہا سال سے بدامنی کا شکار کشمیر کے لوگوں اور یہاں تعینات سکیورٹی فورسز کی ذہنی حالت تھا۔
تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ ان تینوں پولیس افسران نے ڈرامے کا سکرپٹ تک نہیں پڑھا تھا۔
سب انسپکٹر مکیش کمار نے کہا کہ ’ہمیں ممکنہ فسادات کی اطلاعات تھیں لہٰذا ہم نے تشدد اور نقصان سے بچنے کے لیے ڈرامے کو منسوخ کروایا۔‘
ایک ہندو کارکن سوراج سونی نے کہا کہ انہوں نے ڈرامے کے خلاف پولیس کو شکایت درج کروائی اور احتجاج میں شریک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس ڈرامے میں بھارتی فوج کا اس وقت مذاق اڑایا جا رہا تھا جب قوم پلوامہ میں ہلاک ہونے والے جوانوں کا سوگ منا رہی تھی۔  
سونی کے بقول ’ہم نے انہیں ایک شام قبل کہہ دیا تھا کہ ڈرامہ نہ دکھائیں کیونکہ قوم کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں مگر ابھیشک جی ہماری بات سننے کو تیار ہی نہ تھے۔
38 سالہ ڈائریکٹرابھیشک مجمدار کا کہنا ہے کہ وہ سونی سے کبھی نہیں ملے، وہ کہتے ہیں کہ 'کیسا جھوٹا آدمی ہے اصل میں یہ اسی بڑی بیماری کا ہی حصہ ہے جو بی جے پی نے ملک میں پھیلائی ہے۔'
بی جے پی کی رہنما لالیتھا کمارامنگلام کہتی ہیں کہ ’یہ الزامات فنکاروں کے اپنے ذہن کی اختراع ہیں کہ سرکار اور حکمران جماعت اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگا رہی ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’بی جے پی اور اس کے اتحادیوں پر زبانی حملوں کی تعداد سے ثابت ہوتا ہے کہ ناقدین کو اظہار رائے کی کتنی آزادی حاصل ہے۔‘
لالیتھا موجودہ ملکی صورت حال کا موازنہ 77-1975 میں 21 ماہ تک جاری رہنے والی ہنگامی صورت حال کے ساتھ کرتی ہیں جب اندرا گاندھی نے شہری آزادیوں پر پابندی لگا دی تھی۔ اس دوران سینکڑوں صحافیوں، فنکاروں اور دانشوروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔  
بی جے پی کی رہنما کہتی ہیں کہ 'وہ اصل سنسرشپ تھی۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی اس کے قریب بھی پہنچا ہے۔ اگر واقعی اس وقت سنسرشپ ہوتی تو آپ مجھ سے بات نہ کر رہے ہوتے۔‘
قدامت پسند انڈیا میں انتہا پسند ہندو ہی اظہار رائے کی آزادی میں رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ شاید ہی ایسا کوئی مہینہ ہو جس میں کسی خاص مذہب، فرقے یا نسلی گروہ کی جانب سے کسی فلم کو چیلنج نہ کیا گیا ہو۔
تاہم حملوں کی شدت ایسے فنکاروں کو خوفزدہ کرتی ہے جو مودی حکومت یا بھارتی فوج کے نقطہ نظر کو چیلنج کرتے ہیں۔

شیئر: