Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں مسلمان اور مدرسے ایک بار پھر بحث کا مرکز کیوں؟

’مسلمان اور مدرسہ‘ ایک بار پھر سے انڈیا کے ٹی وی چینلز پر گرما گرم بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ انڈیا میں برسر اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جس دن سے مدرسوں کی ماڈرنائزیشن اور سکالرشپ کی بات کی ہے اسی دن سے اس معاملے پر شہریوں کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ 
مودی کابینہ میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے منگل کو ملک بھر کے مدرسوں کو رسمی اور مین سٹریم ایجوکیشن سے جوڑنے کی بات کی تھی تاکہ مدرسوں کے طلبہ بھی سماج کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔
مختار عباس نقوی کا کہنا تھا کہ یہ وزیراعظم نریندر مودی کے منصوبے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس (ترقی)‘ کا حصہ ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اس کے تحت مدرسوں کے اساتذہ کو ملک گیر پیمانے پر ہندی، ریاضی، سائنس، انگلش اور کمپیوٹر وغیرہ میں ٹریننگ دی جائے گی تاکہ وہ مدرسوں کے طلبہ کو مین سٹریم کی تعلیم فراہم کر سکیں۔
انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں سما جوادی پارٹی کے اہم رہنما اور رکن پارلیمان اعظم خان نے حکومت کے اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت واقعی مدرسوں کی بھلائی چاہتی ہے تو وہ ان کے معیار اور انفراسٹرکچر میں بہتری لائے۔
انہوں نے کہا کہ ان مدرسوں میں پہلے سے ہی مذہبی تعلیم کے ساتھ ہندی، انگریزی اور ریاضی پڑھائے جاتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے اس بیان نے بحث کو نیا موڑ دے دیا کہ ’مدرسوں میں ناتھورام گوڈسے اور پرگیا ٹھاکر جیسے افراد تیار نہیں کیے جاتے ہیں۔‘


واضح نہیں کہ یہ سکالرشپ پانچ کروڑ طلبہ کے لیے ہے یا پھر پانچ کروڑ روپے کی مالیت کا ہے۔

یاد رہے کہ ناتھو رام گوڈسے نے انڈیا کے بابائے قوم مانے جانے والے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا جبکہ پرگیا سنگھ ٹھاکر پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور وہ ضمانت پر رہا ہو کر فی الحال انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا مدرسوں کے حوالے سے اقدامات کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ جب ریاست اترپردیش میں وزیر اعلیٰ آدتیہ یوگی ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت آئی تھی تو اس نے مدرسے کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا تھا، جس کی مخالفت اور حمایت میں آوازیں اٹھی تھیں۔ 
بہرحال بی جے پی کے اس اقدام کو بعض مسلم حلقوں میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہے۔ جمیعت علما ہند کے جنرل سیکرٹری مولانا محمود مدنی نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سارے طبقات کو سماج کی بہتری کے لیے یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔ ’ہم ہمیشہ اس قسم کے اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ اس نئے اعلان کے تحت مودی حکومت نے اقلیتی برادری سے آنے والے طلبہ کے لیے پانچ سال میں پانچ کروڑ سکالرشپ کا اعلان کیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ سکالرشپ پانچ کروڑ طلبہ کے لیے ہے یا پھر پانچ کروڑ روپے کی مالیت کا ہے۔
اس حوالے سے انڈین میڈیا میں دونوں خبریں چلائی جا رہی ہیں لیکن سکالرشپ کی حقیقت پر حکومت سے وضاحت طلب کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔

انڈیا میں چار فیصد بچے مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
انڈیا میں چار فیصد بچے مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

اگر یہ سکالرشپ پانچ کروڑ طلبہ کے لیے ہیں تو یہ بہت بڑی تعداد ہے لیکن اگر یہ پانچ کروڑ روپے کی سکالرشپ ہے تو یہ اقلیتی برادری کے لیے کسی مذاق سے کم نہیں کیونکہ اتنی مالیت کی سکالرشپ تو ملک میں بہت سے مخیر ادارے بھی فراہم کرتے ہیں۔
انڈیا کی اقلیتی برادری میں ہندوئوں کے علاوہ تمام مذاہب کے افراد شامل ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور چار فیصد مسلمان طلبہ مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں پانچ کروڑ سکالرشپ بڑی تعداد ہوگی۔
اقلیتی امور کے وزیر مختارعباس نقوی نے کہا کہ اس اعلان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود پرمودی حکومت کی نظر ہے اور یہ خاطر خواہ امر ہے۔ 
یاد رہے کہ مودی نے گذشتہ دور حکومت میں حج سبسڈی ختم کر دی تھی۔

شیئر: