بجٹ والے دن حکومت کے آبی وسائل کے وزیر جناب فیصل واوڈا نے نجی نیوز چینل جیو ٹی وی کے معروف پروگرام کیپیٹل ٹاک میں حامد میر سے بات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’اگر ہمارے بس میں ہو تو پانچ ہزار آدمیوں کو لٹکا دیں اور یقین کریں اس سے 22 کروڑ لوگوں کی قسمت بدل جائے گی۔‘
حامد میر کے سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ یہ ابھی ہمارے بس میں نہیں ہے۔ راہ میں حائل آئین اور قانون جیسی فروعی رکاوٹوں کے سبب یہ ناممکن ہے۔ حامد میر نے بہت طریقے سے ان پانچ ہزار افراد کے نام جاننے کی بھی کوشش کی مگر وزیر موصوف شاید اس تفصیل سے اس وجہ سے اجتناب کر گئے کہ اگر یہ فہرست افشا ہوگئی تو یہ سب کرپٹ مافیا بھاگ جائے گا۔
ہزارمجرمان کی فہرست مکمل کرنے کے لیے جو عدیم الفرصتی درکار ہے وہ ان کو آج کل میسر نہیں۔ اسی غرض سے وزیر موصوف کی مدد کی خاطر چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔
جو حکومت کا بیانیہ ہے اور جس بات کا عندیہ وزیر اعظم نے بجٹ کے بعد اپنی تقریر میں بھی دیا ہے اس کے مطابق تو یہ پانچ ہزار کا ہندسہ بہت ناکافی ہے۔
عوام سے جس پاکبازی کی حکومت متقاضی ہے اس کے مطابق تو یہ فہرست بہت طویل ہونی چاہیے۔ لیکن اگر پھر بھی صرف کرپٹ لوگوں کا ہی احتساب درکار ہے تو اس میں آدھی سے زیادہ کابینہ کے نام اس فہرست کی زینت بنیں گے۔
حکومت کو چلانے والے غیر منتخب افراد کے پرچے جب کھولے جائیں گے تو ان کے بغیر بھی یہ فہرست نامکمل رہے گی لیکن ان چند افراد کے نام سے بھی یہ فہرست مکمل نہیں ہو گی۔ حکومت کو اس سلسلے میں مزید تگ و دو کی ضرورت پیش آئے گی۔
اب تک ہم نے دیکھا ہے کہ جس شخص نے حکومت پرتنقید کی، جس نے نعرہ حق بلند کیا، جس نے قوم کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی اس کے خلاف حکومت نے محاذ بنایا ہے۔ چاہے وہ صحافی ہو، استاد ہو، جج ہو، وکیل ہو یا سیاست دان ہو۔ اس اعتبار سے تمام حکومت مخالفین صحافیوں کے نام اس فہرست میں شامل ہونے چاہئیں۔ تمام میڈیا مالکان اس فہرست کی زینت بننے چاہئیں، وہ تمام اینکر جو اس استبداد کے دور میں دبے لفظوں میں تنقید کی جسارت کرتے ہیں ان کو بھی اس فہرست میں شامل کرنا چاہیے۔
وہ تمام استاد جو یونیورسٹیوں میں جمہوریت کا درس دیتے ہیں اور ماضی میں سیاسی انتقام کے نتائج بتاتے ہیں وہ بھی اس فہرست کا حصہ بن سکتے ہیں۔ وہ تمام جج جو حکومت کے بیانیے سے اتفاق نہیں کرتے، اسے کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں وہ بھی اس فہرست میں آنے چاہئیں۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو سول سپرمیسی کا نعرہ لگاتی ہیں انہیں بھی اس جرم کی پاداش میں اس فہرست کا حصہ ہونا چاہیے۔
وہ تمام سیاسی لیڈر جو ماضی سے سبق سیکھنے کا درس دیتے ہیں اس فہرست میں جگہ پا سکتے ہیں۔ وہ تمام مذہبی جماعتیں جو اس کھوکھلی جمہوریت کے خلاف نعرہ زن ہیں ا س فہرست میں جگہ پا سکتی ہیں۔ وہ تمام مفکرین اور تاریخ دان جنہوں نے مطالعہ پاکستان کے سوا بھی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے ان کو بھی لٹکایا جانا ضروری ہے۔
لیکن یہ فہرست پھر بھی مکمل نہیں ہوتی۔ اس فہرست میں ان ڈھائی کروڑ بچوں کے نام بھی ڈالنے چاہئیں جو الیکشن سے پہلے گندا پانی پینے سے مر جاتے تھے اب ان کے صاف پانی کے مطالبے پر ان کو بھی لٹکا دینا چاہیے۔ وہ تین کروڑ بچے جوالیکشن سے پہلے سکول جانے سے رہ گئے تھے اب جب وہ حصول تعلیم کا سوال کریں ان کو بھی لٹکا دینا چاہیے۔ وہ تمام عورتیں جو الیکشن سے پہلے کرپٹ حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے زچگی کی پیچیدگیوں سے مر جاتی تھیں اب اگر وہ طبی سہولیات کا سوال کریں تو ان کو بھی اس احتساب کا نشانہ بننا چاہیے۔ وہ تمام بے روزگار نوجوان جو نئے پاکستان میں ایک روشن مستقبل کا خواب دیکھ رہے تھے اب نوکری کے سوال پر ان کو بھی دار پر لٹکا دینا چاہِے۔ وہ کسان جو سستی کھاد کے وعدے پر پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کی غلطی کر بیٹھے ہیں اب اگر وہ زرعی سہولیات کا تقاضا کریں تو ان کو بھی پھانسی کی سزا سنا دینی چاہیے۔
لیکن صاحبان فہرست ابھی بھی مکمل نہیں ہوئی اگر حکومت ہمت کرے تو ایک ہی دفعہ اس فہرست میں 22 کروڑ لوگوں کا نام شامل کر لے۔ جنہیں ریاست مدینہ کے مبارک نام پر بے وقوف بنایا گیا ہے۔ایسی حکومت جس نے جھوٹ بولنے کو فن کا درجہ دے دیا ہے۔ ایسی حکومت جس کے لیے حضرت عمر کی مثالیں صرف اپوزیشن کے لیے ہیں۔ ایسی حکومت جو ساہیوال میں طبی سہولتوں کی کمی سے بچوں کے مر جانے پر ماضی حکومتوں کی کرپشن کو ذمہ دار ٹھہرائے۔
ایسی حکومت جو دوسروں کی بیخ کنی پر زور دے اور اپنے گریبان میں نہ جھانکے۔ جو اظہار کے ہر رستے پر قدغنیں لگائے، جو سوال کرنے والے کی زبان کھینچ لینے کا دعویٰ کرے ان کو ووٹ دینے والوں، ان کے جھوٹ پر یقین کرنے والوں کو بھی اس فہرست میں شامل کرنا چاہیے۔
مزید یہ کہ وہ تمام بدعنوان عوام جو ٹیکسوں کے بوجھ تلے بلبلا رہے ہیں۔ جو بچوں کے لیے اس بجٹ کے بعد دودھ چینی اور آٹا نہیں خرید سکتے، جو موٹر سائیکل میں پٹرول نہیں ڈلوا سکتے، جو غربت کے مارے بجلی اور گیس کا بل دینے پر خود کشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو بچوں کو مہنگائی کے سبب سکول جانے سے روک رہے ہیں۔ وہ تمام جو نئے پاکستان میں اس مہنگائی کے باوجود جی رہے ہیں۔ ان سب کا مقام اس فہرست میں بنتا ہے۔
حکومت کو شاید احساس نہیں ہے کہ کرپشن کا بیانیہ اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ کل کو پانچ کلو چینی اور دس کلو پیاز خریدنے والے کے گھروں پر بھی نیب چھاپے مارے گی اور ان کی ہتھکڑیاں لگی تصاویر میڈیا پر چلائی جائیں گی لیکن تاریخ ہمیں سبق سکھاتی ہے کہ اس طرح کی فہرستیں بنانے والے بالآخر خود اس طرح کی فہرستوں کا شکار ہوتے ہیں۔ گرفتاریوں پر شادیانے بجانے والے بالآخر خود گرفتار ہوتے ہیں۔ یہی بات راحت اندوری نے کہی ہے:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے