یہ صاحب یعنی رچرڈ گرینل نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معتمد ترین احباب میں شمار ہوتے ہیں۔ امریکی چناؤ کے بعد کی صورتحال پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گرینل سیکریٹری خارجہ کی سیٹ کے لیے بھی فیورٹ تھے، قرعہ البتہ مارکو روبیو کے نام نکلا۔
اب انہیں ٹرمپ سرکار نے خصوصی مشنز کا ایلچی مقرر کیا ہے۔ ان کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے واضح کیا کہ یہ دنیا کے سرگرم علاقوں یا ممالک کے لیے کام کریں گے بالخصوص وینزویلا اور شمالی کوریا۔
مزید پڑھیں
-
26 ویں کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 880755
-
دھرنا ہوگا یا کوئی ڈیل؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 881940
-
2024 اور پاکستان۔۔ اب آگے کیا ہوگا؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 882888
یہ ٹرمپ کے پہلے دور میں انٹیلی جنس چیف رہ چکے اور خارجہ پالیسی کے ماہرین میں سے ایک ہیں۔ اس دور میں یہ جرمنی میں امریکی سفیر بھی رہے۔ ریپبلکن جماعت کے کٹر داعی گرینل جارج بش کے دورِ حکومت میں امریکی سرکار کے ترجمان کے طور پر اقوام متحدہ میں بھی تعینات رہ چکے ہیں۔
بھلے وقتوں میں یہ ٹرمپ کے ناقد بھی ہوا کرتے تھے لیکن پھر قربتیں بڑھیں اور یہ ٹرمپ کے مریدین میں شمار ہوتے ہوتے معتمد ترین کی فہرست میں ایک ہوئے، اسی قربت کے ہنگام انہوں نے ماضی میں ٹرمپ پر کی گئی تنقید پر مبنی سوشل میڈیائی پوسٹس ڈیلیٹ بھی کیں۔
گرینل کا پاکستان اور عمران خان بارے تعارف اس وقت کُھل کر سامنے آیا جب یہ اس اہم عہدے پر تعینات نہیں ہوئے تھے۔ 25 نومبر اور ڈی چوک کے واقعات پر بلومبرگ نشریاتی ادارے نے ایک ٹویٹ کی، لکھا کہ ’پی ٹی آئی کے حامی عمران خان کی رہائی کے لیے دارالحکومت تک پہنچ گئے ہیں۔‘
اس ٹویٹ کو ری پوسٹ کرتے ہوئے گرینل نے ایک مختصر سا پیغام بلکہ مطالبہ داغ دیا: ’ریلیز عمران خان۔‘ بس پھر کیا تھا، دنیا بھر میں پی ٹی آئی کے چاہنے والے دھڑا دھڑ اس ٹویٹ کو لے کر جذباتی ہوتے چلے گئے۔
زلفی بخاری نے اس پر ان کا شکریہ ادا کیا تو گرینل نے اس شکریے کو بھی ری پوسٹ کر دیا۔
پھر 26 نومبر کو موصوف نے ایک نیا ٹویٹ لکھا کہ ’پاکستان پر نظر رکھیں جہاں ان کا ٹرمپ جیسا ایک رہنما جعلی الزامات کی زد میں جیل کاٹ رہا ہے اور وہاں کے عوام امریکی سرخ لہر سے متاثر ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی انتقام پر مبنی کارروائیاں بند ہونی چاہییں۔‘
پندرہ دسمبر کو جب ان کی باقاعدہ تعیناتی کا اعلان ہوا تو ایک بار پھر موصوف کی ٹائم لائن پر پاکستان اور عمران خان کی چرچا دکھائی دینے لگی۔ اس بیچ یہ دنیا بھر کے دیگر اہم موضوعات بشمول شام کی خانہ جنگی پر بھی بھر پر نظر رکھے ہوئے دکھائی دیے۔
دو روز قبل جب پاکستان کے ایک نامور ترین نشریاتی ادارے نے ان کی تعیناتی پر ٹویٹ اور سرخی لگائی کہ ’ہم جنس پرست رچرڈ گرینل ٹرمپ کے خصوصی ایلچی مقرر۔‘
تو اسی ادارے نے پی ٹی آئی کے چاہنے والوں کی جانب سے ٹرولنگ کے بعد اس سرخی کو ڈیلیٹ کیا ور از سر نو نئی سرخی نکالی، لیکن دوبارہ نشاندہی کی صورت میں ہوئی ٹرولنگ کے جواب میں ادارے نے یہی سرخی دوبارہ جمائی تو اس کا سکرین شاٹ لے کر گرینل نے لکھا: ’میں دوبارہ کہتا ہوں، فری عمران خان!‘
![](/sites/default/files/pictures/December/36251/2024/afp_20241125_36n97gx_v1_preview_pakistanpoliticsunrestkhan.jpg)
پاکستان کے اس مقبول اور قدیم ترین نجی نشریاتی ادارے کی سرخی پر ریان گرن نامی صحافی نے رچرڈ کی خدمت میں کچھ گزارشات کیں اور یہ بتلانے کی کوشش کی کہ یہ ادارہ امریکی مالی مدد سے مستفید ہوتا رہا ہے۔
گرینل نے فوراً اس پر تبصرہ کیا کہ ’ناٹ فار لانگ۔‘ یعنی موصوف اپنے ان ٹویٹس کی صورت میں اپنے ارادوں کا پتہ دے رہے ہیں۔ یہ رام کہانی اس قدر تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ قارئین جان سکیں کہ رچرڈ گرینل ہیں کون اور پاکستان و کپتان بارے کیا رائے رکھتے ہیں۔
خاکسار کو قوی اُمید ہے کہ کپتان اور ان کی پارٹی امریکی مداخلت کے اپنے پرانے بیانیے پر قائم رہتے ہوئے اب بھی ایسی کسی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گی۔
لیکن کیا کیجیے کہ پاکستان میں مقیم قیادت تو اس بابت سہمت دکھائی دیتی ہے مگر باہر بیٹھے جذباتی اور سوشل میڈیائی رہنما گرینل کے ٹویٹس کو لے کر کچھ زیادہ ہی ایکسایئٹڈ ہوئے پڑے ہیں۔ ان کی رائے میں یہ مداخلت نہیں بلکہ حمایت ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/December/36251/2024/khawaja_asif_0.jpg)