Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مسجد نبوی کی لوحیں نصب کرتے آنسو چھلک پڑے‘

برسوں پہلے کراچی میں تبت سنو کے بڑے بڑے ہورڈنگز نصب تھے۔ جہازی سائز کے بورڈز پر 100 سینٹی کے قلم سے صرف ایک لفظ تبت لکھا جاتا تھا۔ آج جدید دور میں خطاط زیادہ سے زیادہ ایک یا ڈیڑھ سینٹی میٹر کے قلم سے لکھ کر اسے کمپیوٹرپر 100 گنا بڑا کرتے ہیں۔
ایک میٹر یعنی 100 سینٹی میٹر کے قلم سے براہ راست لکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کام میں پاکستانی خطاط استاد شفیق الزماں کو مہارت حاصل تھی۔
شفیق الزماں کراچی کی ایک سڑک پر ہورڈنگز تیار کر رہے تھے کہ ایک سعودی شیخ کا وہاں سے گزر ہوا اور اپنی کمپنی میں ملازمت کی پیشکش کر ڈالی۔ ارجنٹ پاسپورٹ بنا، ویزا لگا اور سعودی عرب چلے آئے۔
سنہ 1990 میں مسجد نبوی میں تعمیراتی کام کی نگران کمپنی نے خطاطی کے مقابلے کا اعلان کیا۔ اس مقابلے کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسے خطاط کو تلاش کیا جائے جو مسجد نبوی کے قدیم گنبدوں پر ترک دور میں ہونے والے خطاطی کے کام کو درست کرسکے جو بڑی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔
دنیا بھر سے 400 نامور خطاطوں نے حصہ لیا۔ مقابلے کے منصفین نے جب فیصلے کا اعلان کیا تو لوگ سمجھے کہ خطاط کوئی عرب ہوگا۔ بتایا گیا یہ کوئی عرب نہیں بلکہ پاکستانی خطاط شفیق الزمان ہیں۔
استاد شفیق الزمان مسجد نبوی میں خطاطی کے لیے انتخاب کو محض اللہ تعالیٰ کا کرم قرار دیتے ہیں۔ ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’خطاطی کا فن اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہے۔ کسی سے نہیں سیکھا۔ میری خواہش تھی کہ خطاطی کا کوئی ایک کتبہ مسجد نبوی میں لگے لیکن تمام تر کوشش کے باوجود ایسا نہیں ہوسکا پھر ایک وقت یہ آیا کہ مسجد نبوی کے درو دیوار خطاطی اور نقاشی کے لیے میرے حوالے کر دیے گئے۔‘

۔ استاد شفیق الزمان 30 برسوں سے مسجد نبوی کے گنبدوں پر قرآئی آیات کی خطاطی اور نقاشی کا کام کر رہے ہیں۔ فوٹو اردو نیوز 

انھوں نے کہا کہ ’مدینہ منورہ میں خطاطی کر کے مجھے جو سکون ملتا ہے اور کہیں نہیں ملتا، اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے یہاں خطاطی کا موقع ملا۔ اس سے بڑھ کر اور مجھے کیا چاہیے۔‘
شفیق الزماں کا کہنا ہے کہ ’ترک خطاط استاد حامد الآمدی کے فن سے متاثر ہوں۔ آپ مجھے ان کا روحانی شاگرد کہہ سکتے ہیں۔ اپنے کام میں ان کے معیار اور اسلوب کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ میرے اور استاد حامد کے طغرے ایک ‘جگہ رکھ دیے جائیں تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا طغرہ میرا اور کون سا استاد حامد کا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ دعویٰ تو کوئی نہیں کرسکتا کہ مجھ سے بہتر خطاط کوئی نہیں لیکن میرے کام میں کوئی تو ایسی خاص بات ہے کہ اساتذہ بھی تعریف کرتے ہیں۔‘
استاد شفیق الزمان 30 برسوں سے مسجد نبوی کے قدیم حصے میں ترک دور کے گنبدوں پر قرآئی آیات کی خطاطی اور نقاشی کا کام کر رہے ہیں۔

استاد شفیق الزمان۔ فوٹو اردو نیوز 

قدیم حصے میں ترکوں کے زمانے کے تقریباً 177 گنبد ہیں۔ ایک گنبد 11 میٹر پر محیط ہے۔ اب تک 85 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ شفیق الزمان نے بتایا کہ ایک گنبد پر ایک آیت لکھنے میں بعض اوقات تین سے چار ماہ لگ جاتے ہیں۔ پوری رات کی محنت کے بعد محض ایک میٹر طوالت کی خطاطی گنبد پر منتقل ہوتی ہے۔ خطاطی کا سارا کام خط ثلث میں ہو رہا ہے۔ صرف ایک فرق ہے ترک دور میں یہ کام املائی میں ہوا اب رسم عثمانی میں کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی خطاط نے بتایا کہ ’روضہ شریف پر نصب قرآنی آیات کی تین لوحیں ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں۔ اس کام میں ڈیڑھ برس لگا۔ ایک لوح کی تیاری میں چھ ماہ صرف ہوئے ہر لوح 24 قیراط سونے کی روشنائی سے تحریر کی ہے۔ مسجد نبوی کے دروازوں کے نام اور وہاں قائم دفاتر کے بورڈ بھی میرے لکھے ہوئے ہیں۔‘
شفیق الزمان کا کہنا تھا کہ جب روضہ رسول پر اپنے ہاتھ سے تیار کردہ لوحیں نصب کیں توبے اختیار آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ ’یہ صرف میرے لئے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے فخر اور اعزاز کی بات ہے۔‘
استاد شفیق الزماں کے مطابق ان کے شاگرد صرف پاکستان ہی نہیں ترکی، سعودی عرب، افغانستان، سوڈان، یمن اور دنیا بھر میں موجود ہیں۔ کئی معروف سعودی خطاط شاگردوں میں شامل ہیں۔ نامور سعودی خطاط ناصر محمود بھی انہیں استاد کا درجہ دیتے ہیں۔

پاکستانی خطاط نے بتایا کہ ’روضہ شریف پر نصب قرآنی آیات کی تین لوحیں ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں۔‘ فوٹو اردو نیوز

مسجد نبوی کی تعمیر وتوسیع

مسجد نبوی کی تعمیر اور توسیع کا کام تین حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک ترک عہد کی تعمیر، دوسری شاہ سعود اور تیسری شاہ فہد بن عبدالعزیز کی جدید تعمیر۔ روضہ رسول، ریاض الجنہ، اصحاب صفہ کا چبوترہ اور منبر رسول ترک تعمیر میں ہیں۔ مسجد کے اس حصے کی تعمیر ترک سلطان عبدالمجید خان کے عہد میں ہوئی۔ ترک سلطان نے اس دور کے نامور خطاط استاد عبداللہ زہدی کو بلایا۔
سلطان عبدالمجید خان خود بھی اچھے خطاط تھے۔ عبداللہ زہدی نے کئی برسوں میں مسجد نبوی کے گنبدوں اور دیواروں پر خطاطی اور نقش نگاری کا کام مکمل کیا۔ دی آرٹ آف ترکش کیلی گرافی میں لکھا ہے کہ جب عبداللہ زہدی نے کام مکمل کیا تو اسے دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ انہوں نے ماننے سے انکار کردیا کہ یہ کام کوئی انسان کرسکتا ہے۔ استاد عبداللہ زہدی کی خطاطی ڈیڑھ صدی تک برقرار رہی۔ اب گنبدوں پر نئی خطاطی اور نقاشی کی جا رہی ہے ۔
پاکستانی خطاط شفیق الزمان کا کام ترک استاد عبداللہ زہدی سے تھوڑا مختلف ہے۔ یہ ایک نیا اسلوب ہے۔ اس میں آیات کے تسلسل کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ترکوں کے کام میں یہ خیال نہیں رکھا گیا تھا۔

شفیق الزماں کا کہنا ہے کہ ’ترک خطاط استاد حامد الآمدی کے فن سے متاثر ہوں۔ فوٹو اردو نیوز

خط ثلث کیا ہے؟

خط ثلث کو فن خطاطی میں استعمال ہونے والے تمام خطوں کا بادشاہ ( ملک الخطوط ) کہا جاتا ہے۔ یہ سب سے مشکل اورحسین ترین خط ہے۔ خط ثلث کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ترک خط ہے لیکن یہ عراق سے آیا۔ ترکوں نے اسے عروج دیا۔ استاد مصطفٰی راقم اور استاد حامد الامدی خط ثلث کے بڑے نام ہیں۔
خط ثلث کا کمال یہ ہے کہ اگر100 مختلف خطاطوں کو ایک سائز کا قلم، کاغذ اور آیت لکھنے کے لئے دی جائے تو ان میں سے کسی ایک کا کتبہ دوسرے سے نہیں ملے گا۔ 70 یا 80 فیصد تو مماثلت ہوسکتی ہے سو فیصد نہیں۔ دنیا کی بیشتر مساجد میں خطاطی کے کام میں خط ثلث کو فوقیت دی جاتی رہی ہے۔

شیئر: