Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فارورڈ بلاک: پاکستان میں کب کب کیا ہوتا رہا؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پارٹی کی بااثر شخصیات نے دھڑے بنائے اور سیاست کے رخ بدلے۔
آج کل اپوزیشن کی جماعت مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک کے ’پنپنے‘ کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے مسلم لیگ ن کے پنجاب اسمبلی سے پندرہ اراکین کی عمران خان سے ملاقات کا دعویٰ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگلے مرحلے میں نیشنل اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران وزیر اعظم سے ملاقات کریں گے۔ اگرچہ ن لیگ کی جانب سے تردید ہو چکی ہے لیکن پھر بھی یہ ناممکنات میں سے نہیں اور ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے۔

فارورڈ بلاک کیا ہوتا ہے؟

فارورڈ بلاک ایسے ہم خیال افراد کا سامنے آنا ہے جو اپنی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر سوچتے ہیں، اس کا اظہار بھی کرتے ہیں اور کسی بھی وقت الگ ہو کر یا دوسری پارٹی کا حصہ بن کر اپنی پارٹی کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ ایسے واقعات ملکی سیاسی تاریخ میں بکثرت ملتے ہیں جن میں کبھی دھڑوں اور کبھی بااثر شخصیات نے سیاست کے رخ بدلے۔

بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ضیاالحق نے انتخابات کروائے، لیکن غیر جماعتی بنیادوں پر۔

اسّی کی دہائی کی سیاست اور سیاسی بے وفائیاں

بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ضیاالحق نے انتخابات کروائے، لیکن غیر جماعتی بنیادوں پر۔ اس وقت سیاست سے وابستہ بیشتر لوگ یا تو جیلوں میں تھے یا پھر ملک چھوڑ چکے تھے۔
اس وقت پیپلز پارٹی کے بعض اراکین نے ضیا کا ساتھ دیا، لیکن کوئی فارورڈ بلاک سامنے نہیں آیا۔ تاہم 1986 میں بے نظیر بھٹو وطن لوٹیں اور عوام کے فقیدالمثال استقبال نے ضیا حکومت کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تو جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور وزیراعظم جونیجو کو بے نظیر بھٹو کو واپس آنے دینے کی سزا فراغت کی شکل میں ملی۔

بے نظیر دور حکومت

1988 میں ایک فضائی حادثے میں ضیا الحق کی ہلاکت کے بعد انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی، لیکن یہ ایک  کمزور حکومت تھی۔ اس وقت ان کے تین چار ارکان کو توڑ کر فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کی گئی تھی جو کامیاب نہیں ہوئی۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتمام بھی پیش ہوئی جو اسی سلسلے کی کڑی تھی لیکن یہ تحریک بھی ناکام ہو گئی تھی اور بے ںظیر حکومت 12 ووٹوں سے بچ گئی تھی۔

بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتمام بھی پیش ہوئی تھی۔

مسلم لیگ میں دھڑے بندیاں

اس کے بعد مسلم لیگ کی حکومت بنی جس میں مختلف اوقات میں دھڑے بندیوں کی اطلاعات سامنے آتی رہیں تاہم کوئی تگڑا فارورڈ بلاک نہیں بن سکا۔ لیگی حکومت کے خاتمے کے بعد پھر پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو دھڑے بندیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت مسلم لیگ ن اور چوہدری برادران کے درمیان اختلافات کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں لیکن یہ اکٹھے ہی رہے تاہم اختلافات کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ مسلم لیگ ن کے پھر سے اقتدار میں آنے تک پارٹی کے اندر ’پارٹی‘ کا وجود کافی مستحکم ہو چکا تھا۔
ن لیگ کا قیام
ن لیگ کا بننا بھی بذات دھڑے بندی کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔ نواز شریف 1985 کی پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل) کے رکن رہ چکے تھے ۔ یہ پارٹی 1988 میں رائٹ ونگ الائنس کا حصہ بنی۔ الیکشن میں پی پی پی کو فتح ملی۔ صدر اسحاق نے کرپشن کے الزامات پر پی پی پی کی حکومت برطرف کر دی۔ آئی جے آئی اتحاد نے 1990 کے انتخابات میں فتح حاصل کی اور نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ پارٹی کا ایک گروپ جونیجو کو وزیر اعظم بنانا چاہتا تھا اور یہ دھڑا 1993 میں مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گیا۔ بچی کچھی پارٹی کو پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل ن) کا نام دیا گیا۔ اس حکومت پر بھی کرپشن کے الزامات لگے اور حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ 1997 میں پی ایم ایل این ایک بار پھر حکمران پارٹی بن گئی اور 1999 میں مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

مشرف دور اور ق لیگ

شروع میں پرویز مشرف چیف ایگزیٹیو بنے اور ن لیگ دور کے صدر رفیق تارڑ کچھ ماہ کام کرتے رہے لیکن کچھ ہی عرصہ میں ان کو خاموشی سے فارغ کر دیا گیا۔ اس وقت مسلم لیگ ن کی قیادت جیلوں میں تھی جو بعدازاں جلا وطن ہوئی۔ تاہم اس وقت مسلم لیگ کے ہی ایک دھڑے نے پرویز مشرف کا ساتھ دیا اور پاکستان مسلم لیگ ق ایک نئی پارٹی کے طور پر سامنے آئی، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی اس کے مرکزی قائدین تھے۔ یہ پارٹی بعدازاں 2002 میں ہونے والے انتخابات جیتی اور حکمران جماعت بنی۔

 


پاکستان پیپلز پارٹی سےالگ ہونے والے دو دھڑے پیٹریاٹ اور پی پی شیرپاؤ کی شکل میں سامنے آئے۔

پی پی شیرپائو، پیٹریاٹ

ن حکومت کے خاتمے کے بعد سیاست دانوں پر بہت مشکل وقت تھا زیادہ تر سیاست دان جیلوں میں تھے۔ انہی دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی سےالگ ہونے والے دو دھڑے پیٹریاٹ اور پی پی شیرپاؤ کی شکل میں سامنے آئے، پیٹریاٹ گروپ کے سربراہ فیصل صالح حیات جبکہ شیرپاؤ کے آفتاب خان شیرپاؤ تھے۔ ان پارٹیوں نے اقتدار کے خوب مزے لیے۔ بعد ازاں  ان دو  دھڑوں ’شیرپاؤ‘ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ ‘ نے بھی ادغام کا اعلان کیا اور ایک نئی سیاسی جماعت’ پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ‘ کی بنیاد رکھی۔
نئی پارٹی کے چیئرمین راؤ سکندر اقبال اور آفتاب شیرپاؤ صدربنے، نوریزشکور پارٹی کے نائب صدر جبکہ وزیر داخلہ سید فیصل صالح حیات اس کے جنرل سیکریٹری ٹھہرے۔ ماضی کے بیانات کے مطابق، راؤ سکندر اقبال اور سید فیصل صا لح حیات نے پیپلز پارٹی چھوڑنے کی وجہ، بے نظیر بھٹو کے ان کی قربانیوں  کی قدر نہ کرنا بتائی تھی۔ 

عطا مانیکا بلاک

مختلف پارٹیوں میں ہونے والی دھڑے بندیوں سے بننے والی مسلم لیگ ق کو اس وقت بغاوت کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے رکن عطا مانیکا نے اعلان کیا کہ انہیں اسمبلی میں ق لیگ کے نصف سے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہو گئی ہے اور اب وہ ایوان میں اپنی جماعت کا نیا پارلیمانی لیڈر چنیں گے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اس چناؤ کے ساتھ ہی مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ نون کا اتحاد کر لیا جائے گا۔
عطا مانیکا کو اس وقت مسلم لیگ کے رہنما اور اس وقت کے وزیر اعلی  پنجاب شہباز شریف کی خصوصی سیاسی قربت حاصل ہوئی جب وہ ق لیگ کے منحرف اراکین کو لے کر رائے ونڈ گئے 2013 تک مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت کو سپورٹ کرتے رہے۔ 2013 میں عطا مانیکا خود بھی ن میں شامل ہو گئے تھے۔
 

شیئر: