کیا ٹریکر لگنے سے واقعی آپ کی گاڑی محفوظ ہو جاتی ہے؟
کیا ٹریکر لگنے سے واقعی آپ کی گاڑی محفوظ ہو جاتی ہے؟
بدھ 3 جولائی 2019 3:00
توصیف رضی ملک -اردو نیوز، کراچی
کراچی میں سالانہ چوری اور چھینی جانے والی گاڑیوں میں سے 600 ایسی ہوتی ہیں جن میں ٹریکر لگا ہوتا ہے، تصویر اے ایف پی
کراچی میں روزانہ 900 کے قریب نئی گاڑیاں رجسٹر ہو کر سڑکوں پہ آ تی ہیں اور تقریباً ہر گاڑی میں سکیورٹی ٹریکر لگایا جاتا ہے لیکن پھر بھی شہر میں آئے دن گاڑیاں چوری کی جاتی ہیں اور چھینی بھی جاتی ہیں۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ ٹریکر لگوا لینے سے آپ کی گاڑی محفوظ ہے اور چوری نہیں ہو سکتی تو بتاتے چلیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں سالانہ چوری اور چھینی جانے والی گاڑیوں میں سے 600 ایسی ہوتی ہیں جن میں ٹریکر لگا ہوتا ہے۔
کراچی پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں 1024 سے زائد شہریوں کی گاڑیاں چوری ہوئیں یا چھین لی گئیں جب کہ 2019 کے پہلے چھ ماہ میں ایسے واقعات کی تعداد 593 ہو چکی ہے جن میں 83 افراد کی گاڑیاں چھین لی گئیں، جبکہ 510 گاڑیاں چوری ہوئیں، یعنی کہ ایک دن میں کم از کم تین گاڑیاں چوری ہوتی یا چھین لی جاتی ہیں۔
کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ کے مطابق شہر میں 16 لاکھ سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں جبکہ روزانہ تقریباً 900 نئی گاڑیاں شہر کی سڑکوں پہ آتی ہیں۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کم و بیش تمام گاڑیوں میں ٹریکر ہونے کے باوجود گاڑیاں چوری اور چھینی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے اینٹی کار لفٹنگ سیل (ACLC) کے ایک اہلکار نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ کار چور گروہ کے پاس نئے آلات ہیں جن کے ذریعے وہ ٹریکر کو جام یا ناکارہ کر دیتے ہیں۔
دوسری جانب لوگوں نے ٹریکر کمپنیوں کی کارکردگی پہ بھی سوال اٹھا دیے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گاڑی میں ٹریکر لگوانا رحمت کم اور زحمت زیادہ ثابت ہوا ہے۔
ایک صارف رضوان ملک نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ ان کی گاڑی میں ایک نجی کمپنی کا ٹریکر لگا ہوا ہے لیکن وہ بلوچستان اور حیدرآباد گھوم آتے ہیں اور کمپنی کو معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق گاڑی کو شہر سے نکلتے ہی بند ہو جانا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ رضوان نے بتایا کہ انہوں نے بارہا کمپنی کو شکایت کی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کمپنی نے اپنے آپریشن بند کردیے ہیں اور نئے ٹریکر نہیں لگا رہی، اسی وجہ سے اس کی سروسز کا معیار بھی گر گیا ہے۔ اس حوالے سے جب ’اردو نیوز‘ نے میٹرکس کمپنی کے نمائندے سے بات کی تو انہوں نے اس تاثر کی نفی کی۔
اس حوالے سے ایک اور صارف فواد احمد نے بتایا کہ ان کی کار میں ایک ایسی نجی کمپنی کا ٹریکر ہے جو کافی ’سست‘ ہے، یہ کمپنی تب رابطہ کرتی ہے جب وہ گھوم پھر کے گھر آ جاتے ہیں۔ ’اصولاً تو انہیں میرے ہائی وے پہ جاتے ہی کال کرنی چاہیے یا کار بلاک کر دینی چاہیے، پر میں جامشورو، حیدرآباد سے ہو کے آجاؤں تو رات میں کال آتی ہے، جس پہ میں یہی کہتا ہوں کہ اب کیا فائدہ اب تو میں واپس بھی آچکا۔‘
گاڑی مالکان اپنی گاڑی کو محفوظ کرنے کے لیے اس کی انشورنس بھی کرواتے ہیں لیکن ان کے لیے اطلاع ہے کہ اگر کسی وجہ سے آپ کی گاڑی کا ٹریکر نہیں چل رہا یا خراب ہے تو معاہدے کی رو سے انشورنس کمپنی آپ کے نقصان کی تلافی کرنے کی پابند نہیں۔
ای ایف یو انشورنس کے نمائندے عمران جعفری نے بتایا کہ کمپنی اور صارف کے مابین ہونے والے معاہدے میں یہ بات واضح طور پہ لکھی ہوتی ہے کہ ٹریکر میں خرابی کی صورت میں انشورنس کمپنی گاڑی کے چوری یا چھن جانے کے نقصان کو پورا کرنے کی پابند نہیں ہوتی۔
اس سب سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ تمام افراد جو اپنی گاڑی میں ٹریکر لگوا کر اور اس کی انشورنس کروا کے اسے محفوظ سمجھتے ہیں، درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ آپ کی گاڑی پھر بھی چوری ہو سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو اس کی انشورنس کا معاوضہ بھی نہ ملے۔
کراچی کی رہائشی انعم کے ساتھ۔ بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پہ ڈالی گئی ایک پوسٹ میں انہوں نے بتایا کہ ان کی ڈبل کیبن ویگو گاڑی چوری ہوگئی ہے اور ٹریکر لگا ہونے کے باجود اس کی لوکیشن معلوم نہیں ہو پا رہی۔ گلشنِ معمار کے رہائشی صہیب احمد کی گاڑی گذشتہ ماہ چوری ہوئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ نجی ٹریکر کمپنی والے گاڑی کی آخری لوکیشن گھر کے باہر کی بتا رہے ہیں، یعنی جو بھی چور تھا اس نے باًسانی ٹریکر کو غیر فعال کر کے گاڑی چُرا لی۔
ٹریکر کا کام نہ کرنا تو خطرے کہ گھنٹی ہے ہی، لیکن ضرورت سے زیادہ کام کرنا بھی باعث زحمت ہے۔ عثمان غنی نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ انہیں کمپنی کی جانب سے دی گئی گاڑی میں ٹریکر نصب تھا جس نے ان کا سفر کرنا محال کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئے دن گاڑی بیچ سڑک میں بند ہو جاتی ہے اور ٹریکر کمپنی سے فون کر کے کھلوانے میں کبھی کبھی ان کو آدھا گھنٹہ بھی سڑک پہ انتظار کرنا پڑا ہے۔ گاڑی میں نصب ٹریکر میں فنی خرابی کی وجہ سے یہ پریشانی ہوتی تھی لیکن بقول عثمان کمپنی اس خرابی کو دور کرنے سے قاصر تھی حتیٰ کہ تنگ آ کر انہوں نے وہ گاڑی ہی دفتر کو واپس کردی۔
کراچی کے علاقے گلشن اقبال کی رہائشی عاصمہ صدیقی کو ٹریکر کمپنی کے کام سے تو کوئی شکایت نہیں، مگر وہ کہتی ہیں کہ ٹریکر کمپنی والے ان کے آنے جانے پہ خاص کر کہ رات میں باہر نکلنے پہ ایسی کڑی نظر رکھتے ہیں، ’ٹریکر کم، امی زیادہ لگتے ہیں۔‘