پاکستان کی سپریم کورٹ میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو لیک کرنے پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے خلاف دائر درخواست کی سماعت پر پورے ملک کی نظریں تھیں۔
منگل کی صبح سپریم کورٹ میں بلوچستان سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور پنجاب سے بزرگ سیاست دان جاوید ہاشمی پہنچے تو ٹی وی رپورٹرز ان کی جانب لپکے کہ وہ کیا کہتے ہیں مگر انہوں نے بات عدالتی کارروائی کے بعد تک ٹال دی۔
سپریم کورٹ کے باہر شاہراہ دستور پر غیر معمولی سیکورٹی نظر نہیں آئی تاہم عدالت کی عمارت میں داخلے کے لیے شناختی کارڈز چیک کیے جار رہے تھے اور عام سائلین کی تلاشی کا عمل بھی جاری تھا۔
عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمعت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل بنچ ساڑھے نو بجے مقدمات سننے کے لیے داخل ہوا تاہم ویڈیو لیکس کیس کی باری سوا دس بجے آئی۔
عدالتی اہلکار نے اشتیاق مرزا بنام وفاق پاکستان و دیگر کی آواز لگائی تو چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اب تک تین درخواستیں آ چکی ہیں اس لیے ایک ایک کر کے وکیلوں کو سنیں گے۔
کمرہ عدالت میں محمود خان اچکزئی سب سے اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ جاوید ہاشمی کو درمیان والی نشستوں پر بیٹھنے کی جگہ ملی۔
درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے اپنے دلائل کے آغاز میں معاملے کا پس منظر بتایا اور کہا کہ لاہور میں ن لیگ کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی ویڈیو سے یہ تاثر دیا گیا کہ عدلیہ آزادی سے کام نہیں کر رہی اور اس پر دباؤ ہے۔
وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اور وکلا تنظیمیں بھی اس معاملے پر بیان دے رہی ہیں اس لیے یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے۔ ’سب نے سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال اٹھے گا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم لوگوں کے کہنے پر تحقیقات کرائیں تو کیا اس سے عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال نہیں اٹھے گا؟ ان کا کہنا تھا ’سو موٹو تو وہ ہوتا ہے جو خود سے لیا جائے، کسی کے کہنے یا مطالبے پر جو کیا جائے وہ ازخود نوٹس تو نہ ہوا۔ یہ تو عجیب سی بات ہوگی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت کسی کی ڈیمانڈ یا مطالبے پر نہیں چلتی جس کو مسئلہ ہے وہ درخواست دائر کرے۔ عدالت اس معاملے پر کیا کرے بطور درخواست گزار تجویز دیں۔
وکیل نے کہا کہ کسی ایک جج پر مشتمل کمیشن قائم کریں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ مبینہ ویڈیو کے بعد ججز اور عدلیہ کو مافیا کہا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بھی شعبہ زندگی کے سارے لوگوں کو چور، کرپٹ اور مافیا کہہ دینے کا رجحان افسوسناک ہے۔ ’بیان دیتے وقت کچھ تو ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔‘
وکیل نے کہا کہ ویڈیو کے حوالے سے الزامات میں سچائی کیا ہے اس کو تلاش کیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بنی نوع انسان کی پیدائش سے ہی سچ کی تلاش جاری ہے۔ ’عدالت کی جانب سے کرائی گئی انکوائری کی قانونی حیثیت رائے کی ہوتی ہے۔‘
وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی بھی تو بنائی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ عدالت نے اپنی معاونت کے لیے بنائی تھی اور اس کی انکوائری رپورٹ دوسری عدالت میں پرکھی گئی اور درست ثابت ہوئی۔
وکیل نے کہا کہ کسی میں ہمت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ججز کو بلیک میل کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدلیہ کی ساکھ اور سالمیت پر سوال کھڑے ہوجائیں تو سنجیدہ بات ہے۔
دوسرے درخواست گزار سہیل اختر ایڈووکیٹ کی جانب سے وکیل اکرام چودھری پیش ہوئے۔ انہوں نے پہلے مرحلے میں ویڈیو لیکس کے حوالے سے تمام اخباری تراشے پڑھ کر سنائے جن میں سیاست دانوں کے عدلیہ اور جج ارشد ملک کے حوالے سے بیانات تھے۔
وکیل نے کہا کہ جج ارشد ملک نے نواز شریف اور حسین نواز سے ملاقاتیں کیں جو مس کنڈکٹ ہے۔ ’یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جج نے پریس ریلیز اور بیان حلفی بھی جمع کرایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ غیر معمولی بات اور حالت ہے مگر یہ تحقیق کون کرے۔ ’ہم تو کہتے ہیں کہ اس کی تفتیش ہو۔ کسی بھی فریق کے کنڈکٹ کو دیکھا جائے تو غیر معمولی صورتحال ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ تجاویز دیں کہ اس معاملے میں کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ وکیل نے کہا کہ عدلیہ کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا ’ایک وکیل نے جج کو کرسی دے ماری۔ دوسری جگہ جج نے وکیل کو پیپر ویٹ مار دیا مگر آپ عدالت نہ آئے کہ عدلیہ کھوکھلی ہو رہی ہے، اہم معاملہ ہے۔‘ انہوں نے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ اس کیس میں اس لیے آئے ہیں ’ایک کلائنٹ یا مجرم اس مقدمے میں اہم شخصیت ہے اس لیے یہاں آئے۔‘
مزید پڑھیں
-
ویڈیو سکینڈل: اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کر لیں
Node ID: 425791