الیکشن کمیشن آف پاکستان کا پولیٹیکل فنانس ونگ اپنے قیام کے سات سال بعد بھی آج تک کسی رکن اسمبلی کے خلاف انتخابی اخراجات اور اثاثہ جات کی غلط تفصیلات جمع کروانے پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لا سکا۔
پاکستان کے انتخابی نظام میں ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے کہ امیدوار انتخابات کے دوران بے پناہ پیسے خرچ کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن کے بعد قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک فرضی سی سٹیٹمنٹ بھی جمع کرا دیتے ہیں۔
انتخابی قوانین سے آگاہی رکھنے والے ماہر قانون سید ظفر علی شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے شاید کسی بھی حلقے میں انتخابی اخراجات کی مقررہ حد پر عمل نہیں ہوتا۔ کامیاب امیدواروں کی جانب سے جمع کروائی گئیں تفصیلات سچائی پر مبنی نہیں ہوتیں لیکن الیکشن کمیشن کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔‘
اسی تناظر میں 2013 کے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پولیٹکل فنانس ونگ قائم کیا اور اعلان کیا گیا کہ غلط انتخابی اخراجات جمع کروانے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔
الیکشن کمیشن نے ارکان کو انتخابی مہم کے لیے خصوصی بینک اکاؤنٹ کھلوانے اور تمام ادائیگیاں اسی اکاؤنٹ سے کرنے کی ہدایت کی لیکن ماہرین کے مطابق انتخابی حلقوں میں ہونے والی تشہیر، جلسے جلوس اور حلقے میں مہم کے لیے سینکڑوں کے حساب سے چلنے والی گاڑیاں اس بات کا واضح ثبوت پیش کرتی ہیں کہ عملاً اخراجات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
2013 کے انتخابی نتائج کے بعد کامیاب امیدواروں کی جانب سے اخراجات کی جو تفصیلات جمع کرائی گئیں ان پر کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔
اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ پرانے انتخابی قوانین میں الیکشن کمیشن کے پاس غلط معلومات جمع کرانے والے امیدوار کے خلاف کارروائی کرنا اور جمع کرائی گئی معلومات کا جائزہ لینا الیکشن کمیشن کے اختیارات میں شامل نہیں تھا۔
2017 میں الیکشن کمیشن کے قوانین میں اصلاحات کے لیے نیا الیکشن ایکٹ لایا گیا جس میں الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ غلط انتخابی اخراجات جمع کرانے والوں کے خلاف کارروائی بھی کرے گا اور سالانہ مالیاتی گوشواروں کی جانچ پڑتال بھی کر سکے گا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی رکن کمیشن کو اپنے گوشواروں پر مطمئن نہیں کر سکے گا تو وہ نا اہل بھی ہو سکتا ہے۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار پولیٹیکل فنانس ونگ نے 2017 میں جب سالانہ مالیاتی گوشواروں کا جائزہ لینا شروع کیا تو یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ ترجمان الیکشن کمیشن الطاف خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب پرانی اسمبلی کے گوشواروں کا جائزہ لینے کا آغاز ہوا تو انتخابات میں وقت بہت کم تھا اس وجہ سے جانچ پڑتال کا کام ادھورا چھوڑنا پڑا۔‘
2018 کے انتخابی اخراجات کا بھی جائزہ لیا جائے تو الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بعد 142 ارکان کو اخراجات کی تفصیلات جمع کرانے کے لیے خطوط لکھے اور ارکان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو جواب دینے کا سلسلہ اس قدر سست روی کا شکار رہا کہ جولائی میں ہونے والے انتخابات کے اخراجات کے حوالے سے جنوری میں آخری نوٹس جاری کرنا پڑا۔
یاد رہے کہ جن ارکان اسمبلی کو نوٹس جاری کیے گئے تھے ان میں وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار، سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی، خواجہ آصف، راجہ پرویز اشرف ، فیاض الحسن چوہان اور کئی دیگر شامل تھے۔