احتساب عدالت نے مریم نواز کا 12 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 21 اگست کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
احتساب عدالت کے جج نعیم ارشد نے جمعے کو چوہدری شوگر ملز کیس پر سماعت کی۔نیب پراسیکیویٹر حافظ اسد اللہ نے ملزمان کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔
نیب نے کہا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق چوہدری شوگر ملز اور شمیم شوگر ملز کے نام پر کروڑوں روپے کی ٹرانزکشز ہوئیں اور مریم کے نام پر بھاری سرمایہ کاری ہوئی۔
عدالت نے مریم نواز کے کزن یوسف عباس کا بھی 12 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا ہے اور انہیں بھی 21 اگست کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
گذشتہ روز پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتار کر لیا تھا۔
اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کے مطابق نیب نے جمعرات کو چوہدری شوگر ملز اور رمضان شوگر مل کیس میں مریم نواز کو طلب کر رکھا تھا تاہم مریم نواز نیب میں پیش ہونے کی بجائے کوٹ لکھپت جیل میں قید اپنے والد نواز شریف سے ملاقات کے لیے چلی گئیں تھیں جہاں سے انھیں نیب کی ٹیم نے تحویل میں لے لیا۔ مریم نواز کے ساتھ ان کے کزن یوسف عباس کو بھی نیب نے تحویل میں لیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کی گرفتاری کی تصدیق کی تھی۔
اسلام آباد میں قومی احتساب بیورو کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز اور یوسف عباس کو چودھری شوگر ملز کیس میں گرفتار کیا گیا۔ بیان کے مطابق ’چیئرمین نیب کے حکم پر ڈاکٹرز کی ٹیم ان کا معائنہ کرے گی جبکہ ان کو کل احتساب عدالت لاہور میں ریمانڈ کے لیے قانون کے مطابق پیش کیا جائے گا۔‘
واضح رہے کہ مریم نواز سے قبل مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق اور مفتاح اسماعیل کو بھی نیب نے گرفتار کر رکھا ہے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں مریم نواز کی گرفتاری پر اپوزیشن نے احتجاج اور واک آؤٹ کیا ہے۔ واک آؤٹ کے بعد اپوزیشن اراکین سپیکر ڈائس کے گرد جمع ہوگئے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔
خیال رہے کہ بدھ کو اسلام آباد میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف نے نوے کی دہائی میں چودھری شوگر کے لیے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا جو بحرین میں لیا گیا اور سبسڈی بذریعہ آف شور کمپنی لی گئی۔ یہ رقم پاکستان پہنچنے سے قبل ہی شوگر مل کھڑی کر دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قرض شوگر مل کی مشینری خریدنے کے لیے لیا گیا تاہم شوگر مل بنا دی گئی اور سٹیٹ بنک سے کہا گیا کہ جو قرض بیرون ملک سے مشینری کی خریداری کے لیے آ رہا ہے اسے مل بننے کے بعد ہمارے اکاؤنٹ میں ڈال دیا جائے۔ جس پر رقم چودھری شوگر مل کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’2001 کے بعد اماراتی اور برطانوی شہری شوگر مل کے شیئرہولڈر رہے، 2008 میں شیئرز مریم نواز کو دے دیے گئے لیکن اس دوران رقوم کی منتقلی ظاہر نہیں کی گئی نہ کوئی ادائیگی ظاہر کی گئی۔ 2010 میں مریم نواز یہ شیئرز یوسف عباس کو منتقل کیے۔ جہاں سے یہ ناصر لوتھا کو منتقل ہوئے اور تین سال بعد حسین نواز کو ملے اور پھر ایک کروڑ دس لاکھ ڈالرز کے شیئرز نواز شریف کو منتقل کیے گئے اور 2016 میں پانامہ ایشو سے کچھ روز قبل ہی دوبارہ یوسف عباس کو منتقل ہوئے۔
شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ 2010 سے 2013 تک ناصر لوتھا کے لیے گیارہ ملین شیئرز تھے تاہم جب ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے شیئرز یا شوگر ملز سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور تحریری طور پر بیان بھی دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے اور بھی کئی ثبوت موجود ہیں جن سے عیاں ہوتا ہے کہ چودھری شوگر میں سارا خاندان ہی ملوث رہا ہے، اس حوالے سے نواز شریف سے بھی تفتیش ہو رہی ہے۔ اس کے ذریعے بھی منی لانڈرنگ ہوتی رہی۔