Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان جھینگوں کی عالمی مارکیٹ سے اربوں ڈالر کما سکتا ہے؟

جنید وٹو کے مطابق ’عمران خان نے ہمیں ایک پراجیکٹ دیا جس کے تحت وفاقی حکومت، پنجاب اور سندھ نے مل کر کام کرنا تھا۔‘ (فوٹو: ایگری انفو)
پاکستان نے جھینگوں کی عالمی مارکیٹ میں بڑا حصہ لینے کے لیے کوششیں 1990 کی دہائی میں ہی شروع کر دی تھیں، لیکن اسے  کامیابی نہیں ملی اور متعلقہ محکمے اتنی بڑی مقدار میں جھینگے پیدا نہیں کرسکے جس کی منصوبہ بندی کی جاتی رہی۔
تقریبا ساڑھے تین دہائیوں بعد پاکستانی ماہرین کو اندازہ ہوا کہ وہ بین الاقوامی منڈیوں میں اچھی قیمت حاصل کرنے والے بڑے جھینگے پیدا کرنے کی یہ کوششیں غلط مقام اور ماحول میں کر رہے تھے۔
ہوا کچھ یوں کہ فشریز ڈیویلیپمنٹ بورڈ (ایف ڈی بی) نے پے در پے ناکامیوں کے بعد سال 2015-16 میں ٹھٹھہ کے مقام پر ایک نجی فارم میں تجرباتی طور پر وینامائی (میٹھے پانی کے) جھینگے پیدا کرنے کا پراجیکٹ شروع کیا تو انہیں غیر معمولی کامیابی ہوئی اور انہوں نے 127 ٹن جھینگا دبئی برآمد کر دیا۔
اس سے انہیں اندازہ ہوا کہ پاکستان میں جھینگوں کی اچھی پیداوار ممکن ہے لیکن اس کے لیے ایک خاص زمین، ماحول اور سلسلہ وار کوشش درکار ہے۔
ایف ڈی بی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد جنید وٹو نے اردو نیوز کو بتایا کہ کئی سال تک ناکامی کے بعد جب ایک نجی فارم کے ذریعے وہ مطلوبہ مقدار میں جھینگے پیدا کرنے میں کامیاب رہے تو وہ 2018 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پاس گئے اور انہیں اس صنعت کی صلاحیت اور اس میں پاکستان کی کامیابی کے امکانات سے آگاہ کیا۔
جنید وٹو کے مطابق ’عمران خان نے ہمیں ایک پراجیکٹ دیا جس کے تحت وفاقی حکومت، پنجاب اور سندھ نے مل کر کام کرنا تھا، لیکن جب پراجیکٹ آگے بڑھا تو اس کے فیز ون کے لیے صرف پنجاب اور وفاق عملی طور پر کام کی منظوری حاصل کر سکے۔‘
اس پراجیکٹ کے تحت حکومت نے درآمد کیے گئے جھینگے کے بچے لیے اور اضافی قیمت حکومت نے ادا کرنا تھی اور اس کی ہیچریز اور فیڈ فیکٹریز کی مدد کے علاوہ ورکرز کو تربیت فراہم کرنا تھی۔
’پنجاب میں پیدا ہونے والے جھینگے کا سائز کسی ملک میں نہیں ملتا‘
منصوبے کے تحت ایف ڈی بی نے ساڑھے پانچ سو لوگوں کو جھینگے پیدا کرنے والے فارمز بنانے اور سنبھالنے کی تربیت دی۔
حکام کے مطابق صوبہ پنجاب نے فارمرز کو سبسڈی دینے سے پہلے اس پراجیکٹ کی صلاحیت جانچنے کے لیے پہلے خود سو ایکڑ پر جھینگوں کی پیداوار کا ایک پراجیکٹ شروع کیا اور اس کے ذریعے انہوں نے ایک سو بیس ٹن جھینگے پیدا کر کے ویت نام، متحدہ عرب امارات اور چین کو بر آمد کر دیے۔

محمد جنید کے مطابق حکومت جھینگے کی پیداوار کو محفوظ بنانے کے لیے کانٹریکٹ فارمنگ بھی متعارف کروا رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

جنید وٹو نے بتایا کہ اس برآمد کے بعد پاکستان نے پہلی مرتبہ غیرسمندری مقام سے پانچ لاکھ ڈالر کے جھینگے برآمد کیے ہیں۔
’اس سے ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ پنجاب کی زمین اور موسم جھینگے کی پیداوار کے لیے سندھ سے زیادہ موزوں ہے کیونکہ یہاں سے جھینگے کا جو سائز ہمیں ملا ہے وہ بہت موثر ہے اور یہ کسی اور ملک میں سو دنوں کے اندر پیدا نہیں ہو سکتا۔ چالیس، پینتالیس گرام کا ایک جھینگا جو ہم نے سو دنوں میں پیدا کیا کسی اور ملک میں نہیں ملتا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں ہمیں دوسرے ملکوں پر برتری حاصل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سائز کے جھینگے کی قیمت بھی بہتر ملتی ہے اور پاکستان کے لیے یہ بھی مثبت پہلو ہے کہ یہاں مقامی طور پر کم لوگ جھینگے کھاتے ہیں لہٰذا اس کی تمام پیداوار برآمد کی جا سکتی ہے۔‘
جھینگے کی برآمد سے ایک ارب ڈالر کمانے کا ہدف
فشریز ڈیپارٹمنٹ کے سی ای او نے بتایا کہ اس کامیاب تجربے کے بعد اب صوبہ پنجاب اگلے سال ایک ہزار ایکڑ تک جھینگے کی پیداوار کے فارمز شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جبکہ اگلے چند سالوں میں وہ بیس ہزار ایکڑ تک یہ منصوبہ پھیلانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر پاکستان اگلے پانچ سے دس سالوں میں جھینگے کی برآمد سے ایک ارب ڈالر تک کمانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اور ایف ڈی بی اگلے پانچ سالوں میں جھینگے کی پیداوار دس ہزار ایکڑ تک پھیلانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
جھینگے کی کانٹریکٹ فارمنگ
محمد جنید نے یہ بھی بتایا کہ حکومت جھینگے کی پیداوار کو محفوظ اور پائیدار بنانے کے لیے کانٹریکٹ فارمنگ بھی متعارف کروا رہی ہے جس کے ذریعے سرمایہ کار، برآمد کنندگان اور زمیندار مل کر کام کریں گے۔ اس سلسلے میں 31 دسمبر  کو کراچی میں ایک اہم کانفرنس ہو رہی ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز مشترکہ منصوبوں کے آغاز کے لیے بات چیت کریں گے۔

فشریز بورڈ کے مطابق پاکستان میں جھینگوں کی پیداوار کے گرمیوں کے موسم میں دو سیزن ہو سکتے ہیں (فوٹو: ایگری انفو)

جھینگوں کی ٹارگٹڈ مارکیٹس
پاکستان جھینگوں کی برآمد کے لیے امریکہ، یورپی یونین، اور وسطی ایشیائی ممالک کو ٹارگٹ کیے ہوئے ہے اور اس کے لیے ابھی سے ان ممالک کے درآمد کے قوانین پر عملدرآمد کی تیاریوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
فشریز بورڈ کے مطابق پاکستان میں جھینگوں کی پیداوار کے گرمیوں کے موسم میں دو سیزن ہو سکتے ہیں اور پاکستانی ماہرین کو توقع ہے کہ اگلے سال سے ان دونوں سیزن سے ریکارڈ پیداوار متوقع ہے۔
جھینگے پنجاب کی غیرسمندری زمین تک کیسے آئے؟
چند سال پہلے پاکستان کے فشریز ڈیویلیپمنٹ بورڈ (ایف ڈی بی) نے مچھلی کی ایک نئی ورائٹی تلاپیہ پاکستان میں متعارف کروائی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں بغیر کانٹے کے مچھلی کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے اور ایسی ورائٹی یہاں کم ہے۔ تلاپیہ مچھلی کی پیداوار کامیاب ہو گئی اور اس کی انڈسٹری بڑھنے لگی تو ایف ڈی بی نے انہی زمینداروں کو وینم جھینگے پیدا کرنے کے لیے ان کے بچے انہیں تالابوں میں تجرباتی طور پر ڈالنے کے لیے دیے جہاں پر یہ مچھلی تیار ہو رہی تھی۔
حیران کن طور پر پنجاب کے کئی علاقوں میں تلاپیہ مچھلی کے فارموں میں یہ جھینگے بڑے سائز اور مقدار میں بن کر نکلے جس کے بعد فشریز ڈیپارٹمنٹ کے حکام کو اندازہ ہوا کہ اب تک وہ سندھ میں سمندر کے قریب یہ جھینگے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن وہاں انہیں اس لیے کامیابی نہیں ملی کیونکہ وہاں کی ریتلی زمین اور درجہ حرارت ان کی پیداوار کے لیے موافق نہیں تھے۔
سیم زدہ زمین جھینگوں کی پیداوار کے لیے موزوں
محمد جنید وٹو نے بتایا کہ پاکستان میں سیم زدہ زمین جھینگوں کی پیداوار کے لیے موزوں ہے اور اس مقصد کے لیے حکومت پنجاب اور سندھ میں ایسے مقامات کا تعین کر رہی ہے جہاں پر سیم ہے اور جہاں جھنیگوں کے پیداواری فارمز لگائے جا سکتے ہیں۔

جنید وٹو نے بتایا کہ ماضی میں حکومتی سطح پر اس شعبے کو نظر انداز کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ صوبہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں سینتالیس لاکھ ایکڑ زمین سیم زدہ ہے اور یہ جھینگوں کے فارمز کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔
حکومت کی عدم توجہی اب تک ناکامی کی ایک وجہ
اتنا طویل عرصہ جھینگے اور مچھلی کی پیداوار کو فروغ نہ دینے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے محمد جنید وٹو نے بتایا کہ ماضی میں حکومتی سطح پر اس شعبے کو نظرانداز کیا گیا اور کبھی بھی اتنی مقدار میں فنڈز فراہم نہیں کیے گئے جو اس کی ترقی کے لیے کام آ سکیں۔
’یہ شعبہ محدود پراجیکٹس کے ذریعے نہیں بلکہ سیکٹر ڈیویلپمنٹ کی وسیع سرمایہ کاری کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔‘  

شیئر: