Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکہ مکرمہ حملہ آوروں سے کیسے بچا؟

اس سے پہلے کبھی کوئی حرم شریف میں اسلحے کے ساتھ اس طرح داخل نہیں ہوا فوٹو: وکی پیڈیا
41 برس قبل رونما ہونے والے سانحہ حرم شریف کے عینی شاہد اس وقت کے امام حرم شیخ محمد عبداللہ السبیل نے کہا ہے کہ اس دن وہ جیسے ہی نماز فجر پڑھا کر فارغ ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دسیوں مسلح افراد کعبہ کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔
’یقیناً ان کا نشانہ میں ہی رہا ہوں گا۔ حملہ آوروں کو اس طرح خطرنا ک انداز میں اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر ان کی نظروں سے اوجھل ہونے کے لیے فوری طور پر وہاں سے ہٹ کر حجاج کی صفوں میں چلا گیا۔‘ 
امام حرم شیخ السبیل شاہ عبدالعزیز اکیڈمی کے ایک پروگرام میں  سال ہجری 1400 کے ان واقعات کے حوالے سے اپنی یادداشتیں بیان کر رہے تھے جن کے وہ خود چشم دید گواہ ہی نہیں بلکہ ممکنہ ہدف بھی ہو سکتے  تھے۔

مزید پڑھیے

حرم پر قبضے کی منظر کشی کرنے والے سیریل پر تنازع

شیخ السبیل نے بتایا کہ اس دن وہ فجر کی نماز کے لیے مقررہ وقت پر حرم شریف پہنچے۔ ’حرم شریف میں آنے کے بعد معمول کے مطابق تلاوت میں مصروف رہا۔ اس دوران کسی قسم کا غیرمعمولی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ حرم معتمرین سے بھرا ہوا تھا۔ سب نماز فجر کے انتظار میں تھے جبکہ بڑی تعداد میں لوگ کعبہ کا طواف بھی کر رہے تھے۔‘

جھیمان گروپ کے افراد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تحویل میں لے رکھا ہے۔ فوٹو: وکی پیڈیا

شیخ السبیل نے کہا ’نماز فجر کے لئے موذن نے اقامت کہی اور میں  نے امامت کے فرائض حسب معمول انجام دیے۔ نماز پڑھانے کے بعد جب دعا کے لیے نمازیوں کی جانب مڑا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ متعدد افراد جنہوں نے منہ ڈھانپ رکھے تھے ہاتھوں میں بندوقیں پکڑے کعبے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان کے ارادے خطرناک تھے کیونکہ پہلے کبھی کوئی حرم شریف میں اسلحے کے ساتھ اس طرح داخل نہیں ہوا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی سوچ سکتا تھا۔‘
’مسلح حملہ آوروں کو اس طرح حرم شریف میں دیکھ کر میں نے حکمت عملی سے کام لیا اور خود کو ان کی نظروں سے چھپانے میں کامیاب ہو گیا۔ ہجوم سے نکل کر میں ادارے کے دفتر کی جانب گیا جہاں سے ٹیلی فون پر ادارہ امور حرمین کے اس وقت کے نگران اعلی شیخ ناصر بن حمد الراشد  کو ٹیلی فون پر کر کے انہیں حملے کے بارے میں اطلاع دی۔ ابھی میں شیح ناصر سے گفتگو ہی کر رہا تھا کہ اچانک فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں، ساتھ ہی لوگوں کے بھاگنے کا شور بھی سنائی دینے لگا۔‘ 
شیخ السبیل نے مزید کہا ’حملہ آور مقامی اورخاص کر حرم شریف کی انتظامہ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ انہوں نے تمام دروازے بند کر دیے تھے اور ان کے مسلح افراد وہاں پہرہ دے رہے تھے۔ حملہ آور وں نے بعد ازاں ایسے حجاج کو نکلنے کی اجازت دے دی جو بیرون ملک سے آئے تھے۔‘

کعبے پر حملے کے اس واقعہ پر سعودی ٹی وی نے فلم بھی بنائی۔ فوٹو: وکی پیڈیا

شیخ السبیل جو کہ حرم شریف کے امام تھے وہ حملہ آور وں کے لئے خاص ٹارگٹ تھے اس لئے ان کی تلاش جاری تھی ۔ وہاں سے نکلنے کیلئے بارے میں شیخ السبیل کا کہنا تھا کہ ’دہشتگردوں نے حجاج کو نکلنے کی اجازت دی تو مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی حجاج کے ساتھ شامل ہو کر باہر نکل جائوں ۔ یہ سوچ کر میں بھی سرجھکا کر حجاج کی بھیڑ میں شامل ہو گیا جن کی اکثریت انڈونیشیا سے تعلق رکھتی تھی ۔ حرم شریف سے باہر نکلتے ہی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور حرم شریف کے اندر کی صورتحال سے انہیں آگاہ کیا۔‘ 
شیخ السبیل نے مزید بتایا کہ باہر نکلنے کے بعد معلوم ہوا کہ بعض غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’امام حرم کو حملہ آوروں نے قتل کر دیا ہے جو یقینا غلط تھا کیونکہ رب تعالی نے مجھے ان کے درمیان سے سلامت نکال لیا تھا۔‘
واضح رہے 1979 میں جھیمان نامی ایک شخص نے جو خود ساختہ مصلح اور مہدی ہونے کا دعویدار تھا، اپنے ساتھیوں سمیت حرم شریف پر قبضہ کیا۔ دہشتگردوں نے مکمل منصوبہ بندی سے کارروائی کی اور اسلحے کو جنازوں کی صورت میں حرم شریف پہنچایا تھا ۔ کئی دن تک حرم شریف پر ان کا قبضہ رہا جسے بعدازاں فوجی کارروائی میں ان سے خالی کرایا گیا تھا۔
حالیہ برس رمضان المبارک میں سعودی ٹی وی نے اس واقعہ پر بنائی گئی فلم ’العاصوف 2‘  کے عنوان سے قسط وار پیش کی۔  

شیئر:

متعلقہ خبریں