اگر ہمیں جمہوریت کی کوئی رمق نظر آتی ہے تو اس کے پیچھے رانا ثنا اللہ جیسے کارکن اور نبیلہ ثنا اللہ جیسی خواتین ںظر آتی ہیں۔ فوٹو: فائل
رانا ثناء اللہ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی اور پنجاب کے صدر ہیں۔ اب تک وہ پانچ دفعہ ایم پی اے اور ایک دفعہ ایم این اے کا الیکشن جیت چکے ہیں۔ آج کل یہ جیل میں ہیں۔ پہلے ان کے خلاف منشیات کا کیس تھا۔ سب چینلز ان کے خلاف پریس کانفرنس دکھا رہے تھے جیسے کسی حکم کی تعمیل کی جا رہی ہو۔ جیسے ہی پریس کانفرنس ختم ہوئی کسی بھی چینل نے اس پریس کانفرنس کی کوئی جھلک تک کسی بلیٹن میں نہیں دکھائی۔ اس پریس کانفرنس میں منشیات کی برآمدگی کی ایک وڈیو کو دکھانے کا وعدہ کیا گیا لیکن پھر یہ کہا گیا کہ جنگ جیسی صورت حال میں ہم کسی فلم کی شوٹنگ تھوڑی کر رہے تھے؟
یکم جولائی سے اب تک ان کو جب بھی کسی پیشی پر عدالت میں طلب کیا جاتا ہے وہ میڈیا کے نمائندوں سے اس طریقے سے بات کرتے ہیں کہ موجودہ ماحول میں انکی رہائی کے باقی امکانات بھی مسدود ہو جاتے ہیں۔ ہر منگل کو انکی اہلیہ سے انکی ملاقات ہوتی ہے۔ اس دن وہ بھی اسی طرح گرجتی برستی ہیں کہ لگتا ہے ان کو رتی بھر خوف نہیں۔ وہ دبنگ لہجے میں سیدھا عمران خان تک کو دھمکا رہی ہوتِی ہیں۔ میں ٹی وی پر اس خاتون کی جرات دیکھ کر حیران ہوتا رہتا۔ پھر ہمت کر کے بہت ڈھونڈ ڈھانڈ کر انکا نمبر دریافت کیا۔ سوچا یہ تھا کہ ان خاتون کو سمجھاوں گا کہ مصلحت سے کام لیں۔ کچھ تو حالات کا خیال کریں۔ فون کی اسی گفتگو کا خلاصہ پیش ہے۔
راجپوت النسل نبیلہ ثنا اللہ کی شادی 10 اپریل 1987 کو ہوئی۔ بتیس سال کی اس رفاقت میں انہوں نے رانا ثنا اللہ کی کئی گرفتاریاں دیکھی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس دفعہ گرفتاری کی اطلاع تو ٹی وی سے مل گئی لیکن کسی سے نہیں پتہ چل رہا تھا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔ گرفتاری دن کے وقت ہوئی تھی مگر شام ساڑھے سات بجے پتہ چلا کہ رانا صاحب کو اے این ایف کے کس دفتر میں رکھا گیا ہے۔ ساڑھے سات بجے یہ ملاقات کے لیے پہنچیں مگر رات کو بارہ بج کر پانچ منٹ پر مختصر سی ملاقات کروائی گئی۔ اس وقت انکے شوہر نے ان کو تسلی دی۔
نبیلہ ثنا اللہ کے لیے یہ منظر کوئی نیا نہیں تھا۔ 1999 میں جب ایک ڈکٹیٹر نے ان کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا تھا انہیں وہ واقعہ بھی یاد تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت گرفتاری سے پہلے بہت دباو ڈالا گیا کہ نواز شریف کے خلاف ہو کر اگر ق لیگ میں شامل ہوجائیں تو پنجاب کی کوئی بھی وزارت انکی جھولی میں ڈال دی جائے گی۔ یہ بات کہنے چوہدری شجاعت، پرویز الہی اور اعجاز الحق ان کے گھر آئے۔ لیکن رانا صاحب تو رانا صاحب ہیں بات مان کے ہی نہیں دیے۔ اسی لیے جب انہیں مشرف دور میں گرفتار کیا جانا تھا اس دن فیصل آباد میں کرفیو کا سماں تھا۔ گرفتاری کے 15 دن تک انکی کوئی خبر نہ ملی۔ پھر فیصل آباد کے لوگوں نے احتجاج کا فیصلہ کیا تو اطلاع دی گئی کہ رانا ثنا اللہ کو لاہور قلعے میں رکھا گیا۔
پندرہ دن بعد جب انکی اپنے شوہر سے ملاقات ہوئی تو وہ تشدد کی شدت کی وجہ سے اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ تین ماہ قلعہ لاہور میں ان پر مسلسل تشدد کیا گیا کہ یہ اپنی پارٹی سے بے وفائی کر لیں مگر یہ باز نہ آئے۔ تین ماہ کے بعد جب بے دم حالت میں رہائی نصیب ہوئی تو حالت یہ ہو چکی تھی کہ اس دن سے اب تک رانا صاحب زمین پر نہیں بیٹھ سکتے۔ اب سنا ہے ان پر تشدد نہیں ہو رہا لیکن اذیت دینے کے لیے بستر نہیں دیا جا رہا اور زمین پر لیٹنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
میں نے نبیلہ ثنا اللہ کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ خود محتاط رہیں۔ اپنے بیانات میں احتیاط سے کام لیں۔ مگرنبیلہ ثنا اللہ کا خون جوش مارنے لگا اور وہ کہنے لگیں یہ لوگ نہ ہمیں اپنی وفاداریاں بدلنے پر مجبور کر سکتے ہیں نہ ان گرفتاریوں سے ہمیں جھکایا جا سکتا ہے۔
انہیں اپنے اللہ سے بہت امید تھی کہ وہ انصاف دلا ئے گا۔ حق کو جتوائے گا۔
میں نے فون بند کیا اور اس نتیجے پر پر پہنچ گیا کہ رانا ثنا اللہ کبھی کامیاب سیاستدان نہیں بن سکتے۔ وہ اگر اپنی بات سے پلٹنے والے ہوتے، اپنی قیادت سے بے وفائی کرنے والے ہوتے تو آج پنجاب اسمبلی کے سپیکر یا وزیر اعلی ہوتے۔ وفاق میں ہوتے تو وزیراطلاعات ہوتے، وزیر خارجہ ہوتے یا کم از کم وزیر قانون ہوتے۔ سینٹ میں ہوتے تو کم ازکم چیئرمین ہوتے اس لیے کہ اپنی پارٹیوں سے غداری کرنے والوں اور جمہوریت پر شب خون مارنے والوں پر ہمارے ہاں اسی طرح انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہے۔ لیکن پھر یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ اپنے ہاں اگر ہمیں جمہوریت کی کوئی رمق نظر آتی ہے تو اس کے پیچھے رانا ثنا اللہ جیسے کارکن اور نبیلہ ثنا اللہ جیسی خواتین ںظر آتی ہیں۔
یہ عجیب لوگ ہیں کہ اب تک اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔ یہ اس دورمیں کبھی کامیاب سیاستدان نہیں بن سکتے تھے۔