پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے چونیاں انڈسٹریل اسٹیٹ کے قریب تین بچوں کی لاشیں ویرانے سے برآمد ہوئی جبکہ ایک بچہ تاحال لاپتہ ہے۔
بچوں کے اغوا اور قتل کے خلاف قصور شہر اور سوشل میڈیا پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔
پولیس کے مطابق تینوں بچوں کی شناخت فیضان رمضان، سلمان اکرم اور علی حسنین کے نام سے ہوئی ہے۔ تینوں کی عمریں آٹھ اور نو سال کے قریب ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قصور واقعے پر سب کا محاسبہ ہوگا۔ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وزیر اعظم نے کہا کہ ’جنہوں نے عوام کے مفادات کے تحفظ کیلئے کام نہیں کیا ان سے باز پرس کی جائے گی۔ پنجاب پولیس اور صوبائی حکومت کی جانب سے اب تک درج ذیل اقدامات اٹھائے جاچکے ہیں:
1. ڈی پی او قصور کو ہٹایا جارہا ہے۔ 2۔ ایس پی انوسٹیگیشن قصور خود کو قانون کے حوالے کرچکے ہیں اور چارج شیٹ کے بعد انکے خلاف کارروائی جاری ہے۔ .3ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کیا جاچکا ہے۔ 4۔ قصور پولیس کی از سرِنو صف بندی کی جارہی ہے۔ 5۔ ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تحقیقات کیلئے احکامات دیے جاچکے ہیں۔‘
اس سے پہلے قصور پولیس کے ضلعی ترجمان نے کہا تھا کہ سلمان اکرم کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر 15 اگست، علی حسنین کی 18 اگست جبکہ فیضان کی 16 ستمبر کو درج ہوئی تھی۔ جبکہ عمران جو کہ تاحال لاپتہ ہیں ان کی ایف آئی آر یکم جون کو درج کی گئی تھی۔
قصور واقعے پر سب کا محاسبہ ہوگا۔ جنہوں نے عوام کے مفادات کے تحفظ کیلئے کام نہیں کیا ان سے باز پرس کی جائے گی۔ پنجاب پولیس اور صوبائی حکومت کی جانب سے اب تک درج ذیل اقدامات اٹھائے جاچکے ہیں؛
1. ڈی پی او قصور کو ہٹایا جارہا ہے۔
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) September 18, 2019
بچوں کی لاشوں سے متعلق پولیس کو اس وقت پتہ چلا جب مٹی کے تودے سے مٹی اٹھانے والے ایک ٹریکٹر ڈرائیور نے لاش دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی۔ ایک بچے فیضان کی لاش قابل شناخت حالت میں تھی جبکہ سلمان اور علی حسنین کی باقیات کو کپڑوں کے چیتھڑوں سے گھر والوں نے پہچانا۔
ڈی پی او قصور عبدالغفار قیصرانی نے فرائض سے غفلت برتنے پر ڈی ایس چونیاں نعیم احمد ورک اور ایس ایچ او چونیاں سٹی عرفان گل کو معطل کر کے ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ڈی پی او قصور کے مطابق وہ خود ان کیسز کی نگرانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر ان تینوں واقعات کے پیچھے ایک ہی شخص یا گروہ ہو سکتا ہے کیوں کہ واردات ایک ہی طریقے سے کی گئی اور بچوں کا تعلق بھی ایک ہی علاقے سے ہے۔
ٹوئٹر پر بنت قادر نامی ہینڈل سے لکھا گیا ہے کہ ان سرگرمیوں کے پیچھے بہت مضبوط مافیا ہے۔’ یہ حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے۔ ہم اپنے بچوں کو محفوظ چاہتے ہیں۔ یہ مسئلہ خود حل کریں۔ اس نیٹ ورک کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے بے نقاب کریں۔ ہمیں پنجاب پولیس پر اعتبار نہیں۔‘
#Kasur
Mafia behind such activities is extremely strong. It's a challenge for government. Please we want our children safe. Solve it by yourself. We want them hang publicly. Expose this network by your intelligence agencies. We don't trust Punjab Police #ریپ_کی_سزا_موت pic.twitter.com/Drd6ps2s0D