دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقے میں قائم ’گولڑہ ریلوے سٹیشن‘ انگریز نے اپنے دور حکومت میں سنہ1881 میں تعمیر کر وایا تھا۔
یورپی طرز پر تعمیر کی گئی ریلوے سٹیشن کی عمارت ’گولڑہ‘ نامی گاؤں میں واقع ہے۔ یہ گاؤں نامور بزرگ مہر علی شاہ کی جائے پیدائش بھی ہے اور ان کا مزار بھی اسی گاؤں میں قائم ہے جہاں عقیدت مند دور دور سے سلام پیش کرنے آتے ہیں۔
برصغیر میں بچھائے گئے ریلوے نظام کی 150 سال پرانی تاریخ محفوظ کرنے کے لیے حکومت نے 2003 میں سٹیشن کے مقام پر ہی ’ریلوے ہیریٹیج میوزم‘ قائم کیا تھا، جہاں 1861 اور بعد کے زمانے کی تاریخ بکھری پڑی ہے۔
ٹرین سگنلز، مواصلاتی نظام، ایمرجنسی ایکویپمنٹ، وکٹورین فرنیچر، ٹرین میں استعمال ہونے والے برتن، طبی سامان اور طرح طرح کی گھڑیاں میوزم میں محفوظ ہیں۔
ریلوے سٹیشن کے احاطے میں پرانے انجن اور تاریخی سیلون بھی موجود ہیں۔ ان میں سے سیلون نمبر 38 اور سیلون نمبر 5 خاص تاریخی حیثیت کے حامل ہیں۔
سیلون 38 دراصل ہندوستان کے آخری وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کے لیے مختص تھا جس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی 1945 میں کراچی سے لاہور تک سفر کیا تھا۔
اس سیلون میں سفر کو آرام دہ بنانے کے لیے ہر قسم کی آسائش کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس کو ٹِیک کی لکٹری سے بنے ہوئے فرنیچر سے سجایا ہوا ہے اور مکمل واش روم اور کچن بھی موجود ہے۔
شاہی ٹرین سیلون نمبر پانچ انڈیا کی جودھپور کی ریاست کے مہاراجہ جسونت سنگھ دوئم نے اپنی بیٹی کو شادی کا تحفہ دیا تھا۔ یہ شاہی سیلون 1888 میں اجمیر شریف کیرج ورکشاپ میں مہارانی کے لیے خاص طور پر تیار کیا گیا تھا۔
ٹرین کے ڈبوں کی اس ’کرشمہ ساز‘ چابی کی وجہ سے 1947 میں انڈیا سے پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین باحفاظت اپنے مقام پر پہنچ سکے تھے۔
میجر (ر) ایس ایم رفیع اُس ٹرین کے سیکیورٹی انچارج تھے جس نے انڈیا کی ریاست مدھیا پردیش سے ہوتے ہوئے مہاجرین کو کراچی پہنچانا تھا۔
میجر رفیع نے اس چابی کے ذریعے ٹرین کے دروازوں کو اندر سے لاک کر دیا تھا اور خود ٹرین کے انجن میں رہنمائی کے لیے بیٹھ گئے تھے۔ بلوائیوں کے حملوں سے بچتے ہوئے بارہ سو میل کا سفر طے کر کے مہاجرین باحفاظت کراچی پہنچ گئے تھے۔
ریلوے کے ذریعے ڈاک کی ترسیل کا آغاز 1930 میں انگلینڈ سے کیا گیا۔
پاکستان بننے کے بعد 1947 میں خیبر مِیل کی پہلی سروس شروع ہوئی تھی۔ پشاور سے کراچی تک چلنے والی خیبر مِیل میں ایک پورا کمپارٹمنٹ پوسٹ آفس کے لیے مختص کر دیا گیا تھا، جو آج تک برقرار ہے۔
ڈاک کی مہریں اور مہریں لگانے والے پیڈز ایک ایسی ہی ریل کے ڈبے کا حصہ ہیں۔ اس چلتے ہوئے پوسٹل ٹرین کے ڈبے میں ہی ڈاک کو ترتیب دی جاتی تھی، اور ڈیٹ پنچنگ مشین سے ٹکٹ کے اوپر تاریخ چسپاں کرتے تھے۔
تصویر میں موجود ڈاکیے کا بیگ 1913 کا ہے جس میں مختلف اقسام کی اشیا جیسے قینچی اور مہریں وغیرہ رکھی جاتی تھیں۔
برطانیہ، جرمنی اور ہندوستان میں بنی ہوئی طرح طرح کی لالٹینیں مختلف مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔
مٹی کے تیل سے جلنے والاٹِیل لیمپ ریل گاڑی کے آخری ڈبے میں رکھا جاتا تھا جس کا مقصد ریل کی سمت کی نشاندہی کرنا تھا۔
ہینڈ سگنل لیمپ سٹیشن ماسٹر کے زیر استعمال ہوتا تھا جس کے ذریعے وہ آنے والی ریل گاڑی کے ڈرائیور کو پیغام دیتا تھا۔ اگر سٹیشن ماسٹر سبز لائٹ دکھائے، اس کا مطلب ہے کہ ٖڈرائیور کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں اور وہ اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ سرخ کا مطلب سٹیشن پر رکنے کا پیغام ہے، جبکہ وائٹ لائٹ ریل کے ڈبوں پر سامان اتارنے یا چڑھانے کا اشارہ ہے۔
گیٹ لیمپ ریلوے کراسنگ پر لگا ہوتا تھے جو ٹرین ڈرائیور اور روڈ ٹریفک کو سگنل دینے کے کام آتا تھا۔
جرمنی میں بنائی گئی ہری کین لالٹین ریلوے ٹریک مرمت کرنے والوں کے زیر استعمال تھی۔
انڈیا میں 1930 میں بنی ہوئی لالٹین، ریلیف ٹرینز کا حصہ تھی جو حادثہ ہونے کی صورت میں جائے وقوعہ پر پہنچتیں تھیں۔
مٹی کے تیل سے جلنے والا براس کا بنا ہوا ٹیبل لیمپ ہر سٹیشن ماسٹر کے دفتر میں استعمال ہوتا تھا۔
نارتھ ویسٹرن ریلوے کے کچن میں استعمال ہونے والے براس کے برتن جو تقریباً سو سال سے زیادہ پرانے ہیں۔ ان میں گرلر سے لے کر دیگچہ، چینک اور روٹی بنانے کے لیے بیلن بھی موجود ہے۔
مختلف ریلوے سٹیشنز کے درمیان رابطہ قائم کرنے کے لیے ٹیلی گراف سسٹم لگایا گیا، جو 1836 میں سیمیول مورس نے ایجاد کیا تھا۔ 1995 کے بعد ماڈرن ٹیکنالاجی سے لیس مواصلاتی نظام نے ٹیلی گراف کی جگہ لے لی تھی۔
گرما گرم چائے بیچنے کے پوسٹرز تقسیم ہند سے پہلے کے ہیں جو ریلوے سٹیشنز پر لگے ہوتے تھے۔ ان پر اردوں، گُرمُکھی، ہندی اور بنگالی زبان میں چائے سے متعلق مختلف ہدایات درج ہیں۔
ایک پوسٹر پر لکھا ہوا ہے، ’گرم چائے پیجیے جس سے آپ کو آسودگی، تندرستی، دولت حاصل ہو گی۔‘
چائے کی قیمتوں کے علاوہ، اس کے بنانے کی ترکیب اور پینے کے فوائد بھی درج ہیں۔ یعنی چائے پینے سے ’سندر سواد‘ ملتا ہے اور ’سستی اور اداسی‘ ختم ہوتی ہے۔
تصویر میں تقسیم سے پہلے کے براس کے برتن بھی دیکھے جا سکتے۔ ریلوے سٹیشنوں پر پانی پلانے کا انتظام ہوتا تھا لیکن ہندو اور مسلمان ایک برتن نہیں استعمال کر سکتے تھے۔
’ہندو پانی‘ اور ’مسلمان پانی‘ کے نام سے الگ الگ برتن پڑے ہوتے تھے۔
نیل بال کی ٹوکن مشین پاکستانی فوج نے 1965 کی جنگ میں انڈیا کی ریاست پنجاب کے علاقے میں خیم کرن ریلوے سٹیشن سے قبضے میں لی تھی۔
ٹوکن مشین ٹرین کے آپریشنز کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو ہر ریلوے سٹیشن پر موجود ہوتی ہے۔ اس سے ٹرین کے ڈرائیور کو ٹوکن دیا جاتا ہے جو مخصوص سمت میں جانے والی ٹرین کو ایک ہی دفعہ جاری کیا جاتا ہے۔
وزیر ریلوے کی طرف سے اہم پیغام اس خوبصورت لیٹر کور میں رکھ کر جنرل مینجر کو بھیجے جاتے تھے، جس کی شروعات 1962 میں وزیر ریلوے ایف ایم خان کے دور میں کی گئی تھی۔