گھر کی گری ہوئی دیوار کے ملبے کے ساتھ شریفاں بی بی نے جب دو گاڑیاں رکتی ہوئی دیکھیں تو انہوں نے صحن میں موجود اپنی بیٹیوں کو کمرے میں جانے کا کہا۔ لیکن چھت گر جانے کے خوف سے بیٹیاں کمرے میں جانے سے ہچکچا رہی تھیں۔
زلزلے سے متاثرہ ہر علاقے کی ماں کی یہی پریشانی ہے کہ چار دیواری گرنے کے بعد اب گھر کے پردے کو کیسے محفوظ بنایا جائے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں ساہنگ ککری کی رہائشی شریفاں بی بی نے بتایا کہ ’چار جوان بیٹیاں ہیں۔ کہو بھی تو گھر سے باہر نہیں نکلتیں کہ ان کو اپنے پردے کا خیال ہے۔ قدرت نے پتہ نہیں کیوں ہماری دیوار گرا دی کہ ہم ہر گزرنے والے کی نظر میں آگئے۔‘
منگل کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور کے علاقے جاتلاں، منڈہ پل، سموال شریف اور علی بیگ بے حد متاثر ہوئے۔
جاتلاں سے لے کر منگلا تک اور منڈہ پل سے سموال شریف جس طرف اور جس سڑک پر بھی جائیں ’لیٹی دیواریں‘ نظر آتی ہیں جیسے کہ تھک ہار کر آرام کرنے لگی ہوں۔
کچھ دیواروں کا ملبہ بکھرا پڑا ہے تو کچھ اپنی اصلی حالت میں زمین سے چپک گئی ہیں۔ بعض مقامات پر تو خاندانی جھگڑوں کے باعث گھر کے درمیان بننے والی دیواریں بھی گر گئی ہیں کہ جیسے ان کو تو گرنے کا بہانہ مل گیا ہو۔
شریفاں بی بی کی پڑوسن، محنت کش شفیق کی بیوی فرخندہ بیگم بھی کسما پرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ شوہر صبح سویرے مزدوری پر نکلتے ہیں اور رات کو گھر آتے ہیں۔
فرخندہ بیگم بھی اپنے گھر کی چار دیواری گرنے سے پریشان ہیں کہ میاں کی غیر موجودگی میں اپنے گھر اور بچیوں کی حفاظت کیسے یقینی بنائیں گی۔
فرخندہ بی بی نے روتے ہوئے بتایا کہ ’میرے بچوں کے بستر کسی کو دکھانے کے قابل نہیں، میں نے ہمیشہ ان کو چھپا کر رکھا لیکن مکان ٹوٹا اور رات بارش ہوئی تو آج باہر نکالنے پڑے۔‘
اس کے ساتھ ہی ان کا دل بھر آیا اوربولیں ’اللہ نہ کرے کہ کسی کے کپڑے بستر ایسے ہوں جیسے میرے بچوں اور میرے گھر کے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
کیا زلزلے کسی خاص موسم میں آتے ہیں؟Node ID: 435426
سموال شریف سے پل منڈہ کا پورا راستہ شاید ہی کوئی دیوار سلامت بچی ہو۔ مسجد سکول، گھر اور گھیتوں کے گرد کی دیواریں بھی گر چکی ہیں۔ دیہات میں عموماً لیٹرین گھر کے رہائشی حصے سے دور بیرونی دیوار کے پاس ایک کونے میں بنائی جاتی ہے۔ کئی گھروں کی چار دیواری کے ساتھ لیٹرینیں بھی منہدم ہوئی ہیں۔
پل منڈہ کے محمد رفاقت نے بتایا کہ ’یہ ہمارے لیے نیا مسئلہ ہے، اب مکان سے پہلے لیٹرینیں تعمیر کرنا ہوں گی۔‘
محمد رفاقت کا کہنا تھا کہ ’بجلی بند ہونے سے گھروں میں پینے کا پانی تک ختم ہوگیا ہے۔ اگر کسی کے گھر پر نلکا ہے بھی تو اس کا پانی بھی خراب ہو گیا ہے۔‘
مکانات کے ساتھ زلزلے سے کئی مارکیٹیں بھی منہدم ہوئی ہیں جس سے سینکڑوں افراد کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ رشید اقبال کا تعلق سموال شریف سے ہے اور وہ میرپور کھڑی شریف روڈ پر سبزی پھل کی چھوٹی سی دکان چلاتے تھے۔
رشید اقبال نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مارکیٹ ایک دھچکا بھی برداشت نہ کر سکی۔
مزید پڑھیں
-
’لیٹا تھا کہ پلازہ کانپنے لگا‘Node ID: 435201
’خود تو باہر نکل آئے لیکن دکان میں موجود پھل سبزیاں دب گئے۔ روز کماتے اور روز کھاتے تھے اب سب کچھ نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا۔‘
پاکستان کے زیر انتطام کشمیر کے وزیر برائے سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق زلزلہ سے 1619 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ 7100 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے جبکہ مال مویشیوں کے 580 باڑے بھی تباہ ہوئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مزید نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں