Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرتارپور راہداری کی راہ میں ’حائل‘ 20 ڈالر

20 ڈالر سروس چارجز انڈین میڈیا میں زیربحث ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک عرصے سے بول چال بند ہے لیکن اس کشیدگی کے دوران کرتارپور کا ایک ایسا منصوبہ تھا جس پر دونوں ممالک نے کام بند نہیں کیا اور آج جمعرات کو یہ راہداری کھولنے سے متعلق معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں۔
کرتارپور راہداری پر دونوں جانب سے کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے اور اب سرکاری اعلان کے مطابق نو نومبر کو گرو نانک کے جنم دن سے انڈین شہری بغیر ویزے کے بذریعہ بارڈر کراسنگ، کرتارپور میں واقع گردوارہ دربار صاحب مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آسکیں گے۔ راہداری کھولنے سے قبل ایک مسئلہ بھی سامنے آیا تھا جس کو حل کرنے کے لیے مطالبات سامنے آئے تھے۔
جب سرحد کی دونوں جانب رنجش عروج پر ہو تو مسئلے کا ذکر آتے ہی طرح طرح کے خیالات آ سکتے ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں بلکہ معاملہ 20 ڈالر کا تھا۔ 
انڈیا سے کرتارپور راہداری کے ذریعے آنے والے ہر شہری کو ویزے کی ضرورت تو درپیش نہیں ہوگی لیکن انہیں 20 ڈالر بطور سروس چارچز ادا کرنا ہوں گے۔  

گردوارہ دربار صاحب کمپلیکس کی ازسرنو تعمیر کی گئی ہے۔ (فوٹو اے ایف پی)

 انڈین وزارت خارجہ ایک بیان میں کہہ چکا ہے کہ پاکستان کی جانب سے 20 ڈالر سروس فیس فی یاتری کا فیصلہ مایوس کن ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے انڈین حکام کے 20 ڈالر سروس چارجز ختم کرنے کے مطالبے کو غیر ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ 
انڈین وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انڈیا اس معاہدے پر دستخط کے لیے تیار ہے تاہم ایک بار پھر وہ پاکستان سے سروس فیس کا فیصلہ واپس لینے پر غور کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انڈیا کسی بھی وقت معاہدے میں ترمیم کے لیے تیار ہے۔ 
اس سے قبل پنجاب سے تعلق رکھنے والی انڈین وزیر ہرسمرت کور نے  ٹویٹ میں 20 ڈالر کی فیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’کرتارپور صاحب کے درشن کے لیے پاکستان کی جانب سے  20 ڈالر کی فیس ظلم ہے۔ کوئی غریب یاتری اتنے پیسے کیسے ادا کرے گا؟ پاکستان نے عقائد کو کاروبار بنا لیا ہے اور عمران خان کا بیان کہ اس فیس سے پاکستان کی معیشت بڑھے گی جس سے غیرملکی زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا انتہائی شرم ناک ہے۔‘
دوسری جانب کانگریس سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ بھی اس جانب اشارہ کر چکے ہیں تاہم ان کا رویہ قدرے دھیما تھا۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’میں عمران خان سے اپیل کرتا ہوں کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کرتار پور صاحب میں گرو نانک کی آخری آرام گاہ کے ’کھلے درشن دیدار‘ کی سہولت فراہم کرنے کی مد میں 20 ڈالر کی فیس کے فیصلے کو واپس لے لیں۔ دنیا بھر میں سکھ کمیونٹی ان کے اس اقدام پر شکرگزار ہوگی۔‘ 
تاہم بدھ کو پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان اور کرتار پور راہداری سے متعلق پاکستان کے مذاکراتی وفد کے سربراہ اور فوکل پرسن ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ویزہ فیس نہیں رکھی بلکہ صرف سروس فیس رکھی ہے۔
ان کے مطابق دنیا بھر میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ بارڈر پار جانا ہو اور کوئی فیس وصول نہ کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یورپی یونین میں ایسا ہوا۔ انڈیا ہمارے زائرین کو کبھی بھی ویزہ فری انٹری نہیں دے گا ہم تو پھر بھی سکھ یاتریوں کو دے رہے ہیں۔‘

اس راہداری سے بغیر ویزہ دربار صاحب آیا جائے گا۔  (فوٹو اے ایف پی)

ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ مسلمان حج عمرہ پر جاتے ہیں تو لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ انڈین حکام کا 20 ڈالر سروس چارجز ختم کرنے کا مطالبہ غیر ضروری ہے۔ 
تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا 20 امریکی ڈالر اتنی بڑی رقم ہے کہ انڈین سکھ یاتری یہ ادا کرنے سے قاصر ہیں؟ فارن ایکسچینج ریٹ کے مطابق 20 امریکی ڈالر تقریبا 1400 انڈین روپے بنتے ہیں۔ 
بیشتر سکھ شہریوں کی جانب سے اس 20 ڈالر سروس چارجز کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جا رہی تاہم انڈین ذرائع ابلاغ میں اس معاملے کو کئی دنوں سے ’جزیہ‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ 
انڈیا میں غیرسرکاری تنظیم سوسائٹی فار پروموشن آف پیس کے چیئرمین چنچل منوہر سنگھ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کرتارپور راہداری کا کھلنا سکھ کمیونٹی کے لیے ایک بہت بڑی خبر ہے کیونکہ یہیں پر گرو نانک کے اپنی زندگی کے آخری 17 سال اور چند ماہ گزارے تھے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا سمیت دنیا بھر میں سکھ کمیونٹی اس فیصلے پر بہت خوش ہے لیکن انڈیا میڈیا اور کچھ سیاست دان اس بارے میں منفی پراپیگنڈا پھیلا رہے ہیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ کچھ حلقے 20 ڈالر سروس چارج کے بارے میں واویلا کر رہے ہیں کہ یہ ختم ہونا چاہیے جن میں وزیراعلیٰ پنجاب امریندر سنگھ اور شرومنی اکالی دل جیسی سیاسی جماعت کے سیاستدان شامل ہیں۔ 
چنچل منوہر سنگھ نے کہا کہ یہ بات سمجھنا چاہیے کہ کرتارپور راہداری کے ذریعے تقریبا پانچ ہزار یاتری گردوارہ دربار صاحب جائیں گے اور ان کی دیکھ بھال، صفائی، بجلی و پانی، ٹرانسپورٹ کا خرچ ہوگا، لہذا 20 ڈالر سروس چارج کا فیصلہ غلط نہیں ہے۔ 
اس حوالے سے لدھیانہ سے تعلق رکھنے والے سکھ سماجی کارکن امن دیپ سنگھ بینس نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے جسے امریندر سنگھ اور ہرسمرت کور اٹھا رہے ہیں۔ میں تاحال کسی ایسے شخص سے نہیں ملا جس نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دیہات میں غریب لوگوں کو درشن کے لیے لے کر جانے کی روایات ابھی بھی موجود ہیں اور اکثر بااثر افراد لوگوں کی مالی معاونت بھی کر دیتے ہیں۔ 
’اگر کوئی خرچ نہیں کر سکتا ہے تو میرے خیال میں گاؤں کے مخیر حضرات انہیں اپنے ساتھ لے جائیں، پنجاب میں ہر سال ویساکھی کے لیے لوگوں کو اسی طرح آنندپور صاحب لے کر جانے کی روایات موجود ہیں۔‘ 

عمران خان نے 28 نومبر کو کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔  (فوٹو اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں اب بھی کئی بڑے گردواروں میں رہائش کا کم از کم کرایہ 1100 انڈین روپے سے زائد ہے لہذا کچھ سیاست دان صرف عوام کو یہ ظاہر کرنے کے لیے وہ ان کے خیرخواہ ہیں اس قسم کے نان ایشوز کو ہوا دے رہے ہیں جبکہ دراصل وہ ہماری بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔‘
اسی طرح پٹیالہ سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مصنف ہرپریت سنگھ کاہلوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ سکھ برادری کرتارپور راہدری کھلنے سے بہت خوش ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہمارے یہاں ہم جب کسی گردوارے جاتے ہیں تو وہاں بھی ہزاروں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لہذا 20 ڈالر سروس چارج کو بلاوجہ مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ کرتارپور صاحب پاکستان میں واقع ہے اور اگر پاکستان کی جانب سے انڈین شہریوں کو یہاں آنے کی اجازت دی جا رہی ہے تو انفراسٹرکچر کی تعمیر اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے رقم بھی درکار ہوگی اور یہ سروس چارج اسی لیے لیا جائے گا۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ انڈین میڈیا میں اسے جزیہ قرار دیا جا رہے جبکہ انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ جزیہ کیسے ہو سکتا ہے جب یہاں آنے والے تمام انڈین شہریوں کو ادا کرنا ہوگا خواہ وہ سکھ، ہندو، مسیحی یا مسلمان ہو؟ 
انہوں نے کہا کہ 20 ڈالر سروس چارج کے حوالے سے یہ تشویش بہرحال موجود ہے کہ غریب خاندان کے افراد کے لیے اتنی رقم اکھٹی کرنا مشکل ہوسکتا ہے اس حوالے سے انڈین سرکار کو کوئی راستہ نکالنا ہوگا اور انہیں خصوصی رعایت فراہم کرنے پر غور کرنا ہوگا۔ 
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: