امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو نے کہا ہے کہ سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے خاندان کو مسلسل ہراساں کرنے اور ان کے والد کی حراست پر تشویش ہے۔
محکمے نے اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا ہے امید ہے کہ پاکستان کی حکومت پر امن اجتماع اور رائے کی آزادی کے حقوق کو یقینی بنائے گی۔
We are concerned by reports of the continued harassment of Gulalai Ismail’s family, and her father’s detention today. We encourage Pakistan to uphold citizens’ rights to peaceful assembly, expression, and due process. AGW
— State_SCA (@State_SCA) October 24, 2019
دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایچ آر سی پی نے گلالئی اسماعیل کے والد کو اٹھائے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پروفیسر اسماعیل کو فوراً رہا کیا جائے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق پاکستان کے آئین میں دیے گئے شہریوں کے تحفظ کے حقوق کے باوجود پروفیسر اسماعیل اور ان کے خاندان کو مسلسل ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔
HRCP is alarmed at the continued intimidation of @ProfMIsmail and family with no regard for the protection for citizens enshrined in the Constitution, and lack of due legal process. He was arbitrarily picked up outside the Peshawar High Court. We call for his immediate release.
— Human Rights Commission of Pakistan (@HRCP87) October 25, 2019
امریکہ میں مقیم پشتون تحفظ موومنٹ کی رکن اور سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر محمد اسماعیل کو جمعرات کی سہ پہر نامعلوم افراد نے پشاور ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے سے مبینہ طور پر اغوا کیا تھا۔
پروفیسر محمد اسماعیل پشاور ہائی کورٹ میں ان پر کیے گئے مقدمے کی سماعت کے لیے گئے تھے۔
گلالئی اسماعیل نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتہ پہلے بھی ان کے والد کو اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی۔
گلالئی اسماعیل کے مطابق کہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان کے والد ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا خاندان ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار تھا کہ یا ان کے والد کو اٹھایا جائے گا یا ان کو قتل کیا جائے گا۔
گلالئی اسماعیل نے مزید کہا کہ ان کے والد کے وکیل نے ان کو خبر دی کہ نا معلوم افراد نے ان کو اٹھا لیا ہے۔
’میرے والدین کا استحصال شروع ہے، ان کو پاسپورٹ بنانے نہیں دیا گیا۔ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ میرے والدین کے ساتھ غیر انسانی رویہ رکھا جارہا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو قبائلی نظام کے تحت کسی ایک فرد کے جرم میں پورے خاندان والوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے ہم پر جھوٹے مقدمے قائم کیے ہیں، میں اپنے والد کے کے لیے پریشان ہوں، ان کو آزاد کیا جائے اور ان کو وہ حقوق دیے جائیں جو آئین نے دیے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد کی عمر 63 برس ہے اور وہ گذشتہ 50 برسوں سے انسانی حقوق کے رکن رہے ہیں۔
گلالئی اسماعیل کے مطابق ان کے والد زمانہ طالب علمی ہی سے انسانی اور سیاسی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کو سابق فوجی صدور جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کے دور میں جیل بھی جانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میں بھی کوئی حقوق کی بات نہیں کر سکتا۔
پروفیسر اسماعیل خیبر پختونخوا کے مختلف کالجوں میں پڑھا چکے ہیں۔
رواں سال مئی میں اسلام آباد میں ایک 10 سالہ پشتون لڑکی کے اغوا، زیادتی اور قتل کے بعد ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے گلالئی اسماعیل نے پاکستانی سکیورٹی اداروں کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات لگائے تھے جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کے خلاف اشتعال انگیزی کا مقدمہ درج کیا اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارنے شروع کر دیے تھے۔
گلالئی اسماعیل پاکستان میں کئی ہفتے فرار ہونے کے بعد گذشتہ ماہ امریکہ پہنچ گئی تھیں۔ پروفیسر اسماعیل کے چھ بچے ہیں جو اس وقت امریکہ میں مقیم ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں