نوشکی میں گل خان کے نام سے منسوب لائبریری ہے۔ فوٹو: فیس بک
والٹیئر نے کہا تھا ’جب میں قلم اٹھاتا ہوں تو حالتِ جنگ میں ہوتا ہوں۔‘ یہ بات میر گل خان نصیر پر بھی صادق آتی ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب، محقق، مورخ اور سیاست دان تھے۔ انہیں بلوچ عوام اور بلوچستان سے جنون کی حد تک محبت تھی۔
نوشکی بلوچستان میں 1914 میں جنم لینے والے گل خان نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ سنڈیمن ہائی سکول کوئٹہ سے میٹرک کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے کیا مگر آنکھ میں کنکر لگنے کی وجہ سے مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔
طویل قامت گل خان اچھے فٹ بولر تھے لیکن انہیں باکسنگ کا زیادہ شوق تھا۔ آل انڈیا یونیورسٹیز باکسنگ ٹورنامنٹ میں دوسرے نمبر پر تو آئے لیکن ناک تڑوا بیٹھے۔
تب بلوچستان مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ گل خان نے ریاست قلات میں نائب تحصیلدار کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ اس ریاست کے وزیر مال بھی رہے۔ جہاں انہیں عوام کی حالت زار کو گہرائی سے دیکھنے کا موقع ملا۔
لاہور میں طالب علمی کے زمانے میں ان پر ترقی پسند سیاست و فکر کے اثرات تو تھے ہی، اب عام لوگوں کی پس ماندگی، استحصال نے انہیں سیاست کے خاردار میدان میں اتاردیا۔ وہ انجمن اتحاد بلوچان میں شامل ہو گئے۔ جب یہ تنظیم غیر فعال ہونے لگی تو انہوں نے ملک عبدالرحیم خواجہ خیل کے ساتھ مل کر انجمن اسلامیہ ریاست قلات نام سے تنظیم بنائی۔
عبدالعزیز کرد، ملک فیض محمد یوسف زئی، غوث بخش بزنجو کے ساتھ مل کر قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی بنائی۔
پچاس کے عشرے میں جب نیشنل عوامی پارٹی بنی تو گل خان نصیر دیگر ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ اس میں شامل ہو گئے۔
1970 میں انہوں نے بڑے مالدار اور ماربل کی کانوں کے مالک نبی بخش زہری کو شکست دے کر انتخاب جیتا۔ جے یو آئی اور نیپ کی مخلوط حکومت میں وزیر رہے۔ انہیں تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے قلمدان سونپے گئے۔
سیاسی و ادبی سفر میں انہیں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ وہ بتایا کرتے تھے’1941 سے 1973 تک مجھے کئی بار جیل جانا پڑا، غالباً اِس عرصے میں کوئی سال ایسا نہیں گزرا جس میں مجھے جیل کی زیارت نہیں کرنا پڑی، جیل خانوں میں مجھے جو سزائیں بھگتنا پڑیں ان کی وجہ سے کئی جسمانی بیماریاں لگ گئیں، سیاسی مزاج میں یاس و اُمید کے کئی دور آئے اور گزر گئے لیکن میری شاعرانہ کیفیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ اُس کی آگ بھڑکتی ہی رہی۔‘
انہوں نے اتحاد، نوائے وطن، نوائے بلوچستان اور دیگر اخبارات میں استحصالی نظام، سرداری راج، جرگہ اور دیگر سیاسی و سماجی امور پر متاثرکن مضامین لکھے۔
گل خان نے دو جلدوں پر مشتمل ’تاریخ بلوچستان‘ لکھی۔ اس کے علاوہ بلوچ تاریخ، ادب، ثقافت اور سیاست پرمتعدد کتابیں لکھیں جن میں کوچ و بلوچ، بلوچستان قدیم و جدید تاریخ کی روشنی میں، بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار، تاریخ خوانین بلوچستان، بلوچستان کی کہانی شاعروں کی زبانی، بلوچی رزمیہ وعشقیہ شاعری اور سنیائی کیچک کا بڑا چرچہ رہا۔
بلوچی، براہوی، فارسی اور اردو میں شاعری کی۔ ان کے کلام پر مشتمل کتابوں میں گل بانگ، شپ گروک، مشہد نا جنگ نامہ کو بہت پزیرائی ملی۔ انہوں نے سندھی کے کلاسیکی شاعر شاہ عبداللطیف کی منتخب شاعری کا بلوچی میں منظوم ترجمہ بھی کیا۔ اردو شاعری کا مجموعہ ’کارواں کے ساتھ‘ شائع ہو چکا ہے۔
گل خان نصیر کی کتاب ’مشہد نا جنگ نامہ‘ 1981 میں شائع ہوا۔ کتاب کے مقدمہ میں وہ رقمطراز ہیں ’میرا ارادہ تھا کہ فردوسی اور شاہنامہ کی طرح تاریخ بلوچستان کو مکمل نظم کروں‘۔
ان کی پانچ کتابوں کی تقریب رونمائی کوئٹہ اور دو کتابوں کی کراچی میں ہوئی جن میں اس وقت کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے شرکت کی۔
ان کی بیٹی گوہر ملک نے لکھا تھا وہ شکار کھیلنے جاتے تو بھی کاپی اور قلم ضرور ساتھ لے جاتے۔ ایک دن جب وہ شکار سے واپس گھر پہنچے تو ان کا تھیلا پتھروں سے بھرا ہوا تھا۔ پتہ چلا کہ کاغذ پینسل لے جانا بھول گئے اور پتھروں پر ہی شاعری لکھتے رہے۔
زاہدہ حنا لکھتی ہیں کہ ’ہمارے ہاں شاعری لب و رخسار اور زلفِ مشکبار کے ذکر کا دوسرا نام سمجھی جاتی ہے اور کبھی وصال کی کیفیتیں اور ہجر کی اذیتیں اشعار میں رقم ہوتی ہیں لیکن نصیر صاحب کی محبوبہ ان کی دھرتی تھی۔‘
شاہ محمد مری لکھتے ہیں کہ ’گل خان نصیر اپنی اردو شاعری میں کھل کر مزدور، کسان اور عام بلوچ کے گیت گاتے ہیں۔ وہ سرداروں، زرداروں کی مخالفت کسی بھی لگی لپٹی کے بغیر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری سامراج دشمن سوچ کے ساتھ ہم آہنگ تھی۔ عام بلوچ آدمی ان کی شاعری کا واحد موضوع رہا۔
اپنی شعوری زندگی کے آغاز سے آخری سانس تک وہ اپنے لوگوں کو انصاف دلانے اور مساوی حقوق کے حصول کے لیے حالت جنگ میں رہے۔ چھ دسمبر 1983 کو کینسر کے موذی مرض میں کراچی میں انتقال کر گئے۔
بعد از مرگ ادبی اورعلمی خدمات کے عوض انہیں 2001 میں صدارتی ایوارڈ ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔
نوشکی میں ان کے نام سے منسوب لائبریری ہے، جہاں لوگ کتابیں بطورعطیہ دیتے ہیں جبکہ لائبریری کی انتظامیہ نے یہ روایت قائم کی ہوئی ہے کہ لڑکی کو شادی کے موقع پر کتاب کا تحفہ دیا جاتا ہے۔
ان کے لکھے ایک ترانے ’ اے سرخ دیے تیری تب و تاب سلامت‘ نے انقلابیوں میں دھوم مچا دی تھی۔ اس ترانے کا ترجمہ فیض احمد فیض نے کیا۔ قوم کے ’اعلیٰ طبقہ‘ کے بارے میں وہ کہتے ہیں۔
یا مالی، بجار، پرسی سے یہ قوم کے پیسے لوٹتے ہیں
یا عیش و طرب کے دھندوں میں یہ اپنا مایہ کھوتے ہیں
یہ قوم کا اعلیٰ طبقہ ہے، کہتے ہیں انہیں سردار سبھی
یہ جاہل ہیں، یہ وحشی ہیں، ہوئیں گے نہ یہ بیدار کبھی