پاکستان کے موقر انگریزی روزنامے ڈان کے اسلام آباد میں واقع دفتر کے باہر نامعلوم افراد نے چند دنوں میں دوسرا گھیراؤ اور مظاہرہ کیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین نے اپنا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں بتایا مگر ان کا کہنا تھا کہ مظاہرہ ڈان اخبار کی طرف سے گذشتہ ہفتے لندن پل پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں ملوث شخص کا تعلق پاکستان سے جوڑنے کی سرخی لگانے کے خلاف ہے۔
ڈان کے دفتر میں موجود ادارے سے وابستہ سینیئر صحافی خلیق کیانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ’ مظاہرین ڈان اخبار کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ انہوں نے دفتر کے داخلی راستہ کے سامنے ایک پتلا بھی جلایا۔‘
مزید پڑھیں
-
ہندوستانی سمیت 4غیر ملکیوں کی مقامی اخبارات میں تشہیرNode ID: 405611
-
پاکستانی صحافیوں کی عدالت میں طلبیNode ID: 440051
-
لندن: حملہ آور عثمان پہلے سزا یافتہ تھےNode ID: 445821
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس نے مظاہرین کو دفتر میں داخلے سے روکے رکھا اور کچھ دیر نعرے بازی کے بعد مظاہرین منتشر ہو گئے۔‘
ڈان کے ایڈیٹر ظفرعباس نے بھی سوشل میڈیا پر واقعے کے حوالے سے بتایا۔ اپنی ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’منظم منصوبے کے تحت ڈان کے خلاف اس کے اسلام آباد میں واقع دفتر کے باہر ایک اور مظاہرہ، وہی لوگ، دھمکی آمیز لہجہ، پہلے سے زیادہ تعداد نے داخلی راستہ بھی بند کر دیا ہے۔ ہم نے پولیس کو اطلاع دے دی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ عملے اور املاک کی حفاظت کریں۔ امید ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی شخص مداخلت کرے گا۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے ڈان کے گھیراؤ پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی طرف سے بھی نوٹس لیا گیا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک ہجوم کی جانب سے دارالحکومت میں حکومت کی ناک کے عین نیچے ایک بڑے میڈیا ہاؤس پر حملہ ہونا افسوس ناک ہے۔‘
بلاول بھٹو نے میڈیا گروپ کے اسلام آباد کے دفتر کا دورہ بھی کیا تھا۔ پاکستان کی صحافتی تنظیموں نے بھی ڈان اخبار کے دفتر کے گھیراؤ کی مذمت کی ہے اور واقعے کو صحافیوں کو ہراساں کرنے اور آزادی صحافت کے خلاف کوشش قرار دیا ہے۔
گذشتہ ہفتے کے مظاہرے کے دوران شرکا کی طرف سے ڈان کے دفتر میں ملازمین کا داخلہ بھی بند کر دیا گیا تھا۔ مظاہرین نے اخبار کے دفتر کا محاصرہ کرتے ہوئے اُس کے مرکزی دروازے پر ڈان اخبار کے مخالف پمفلٹس بھی چسپاں کیے جن پر درج تھا کہ ’ڈان کو بند کرو‘ ’ڈان کی ملک دُشمنی نا منظور‘۔
اتفاق کی بات ہے کہ جمعہ کو مظاہرے سے چند گھنٹے قبل ہی سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین سنیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی سربراہی میں پچھلے گھیراؤ کے معاملے کا جائزہ لیا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ نے کمیٹی کو بریفنگ دی تھی۔ پولیس حکام نے بتایا کہ لندن کی کی وجہ سے 40 سے 50 لوگوں نے مظاہرہ کیا۔ پولیس اطلاع ملتے ہی ڈان آفس پہنچی اور ڈان نیوز کی جانب سے مظاہرین سے بات چیت کی گئی جس کے بعد مظاہرین چلے گئے۔
They have just dispersed after burning some copies of Dawn. Everyone has a right to protest as long as they are not violent. https://t.co/b30VFqIvQH
— Zaffar Abbas (@abbasz55) December 6, 2019
حکام نے بتایا کہ ایف آئی آر کی درخواست نہ موصول ہونے کے باعث کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کا کہنا تھا کہ ’مظاہرین کا کسی جماعت سے تعلق نہیں تھا وہ عام لوگ تھے۔‘ پولیس حکام نے یقین دلایا کہ ڈان کو جو سکیورٹی چاہیے فراہم کر دیں گے۔
کمیٹی کے رکن بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ تحقیقات کی جائیں کہ ’مظاہرہ کرنے والے لوگ کون تھے اور ان لوگوں کا مقصد کیا تھا۔‘ مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ’میڈیا کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ‘انہوں نے کہا کہ ’بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ انسانی حقوق کمیٹی اس حوالے سے آواز اٹھاتی رہے گی۔‘ کمیٹی نے ڈان آفس کو سکیورٹی فراہم کرنے اور مظاہرے کے معاملے کی تحقیقات کی ہدایت بھی کی۔
کمیٹی میں خصوصی طور پر مدعو کیے گئے پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’ڈان کے باہر مظاہرے سے قبل ایک وزیر نے ٹویٹ کی تھی اور اس ٹویٹ کے 24 گھنٹے بعد مظاہرہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’مظاہرین نے ایک ادارے کے حق میں نعرے لگائے اور حکومت نے اس معاملے کی مذمت تک نہیں کی اور پولیس نے کوئی تحقیقات نہیں کیں کہ لوگ جمع کیسے ہوئے اور کون تھے۔‘ انہوں نے پوچھا کہ ’ملک کے مخصوص علاقوں میں ڈان اخبار پر پابندی کیوں ہے؟‘
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں