زندگی سے بھرپور، ایک ہنستا مسکراتا چہرہ دنیا سے اچانک منہ موڑ جائے تو دل کو دھچکا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کانوں کو سننے میں دھوکا ہوا ہے۔ پھر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس انسان کو اتنی جلدی نہیں جانا چاہیے تھا۔ اس نے تو ابھی بہت ساری کامیابیاں سمیٹنی تھیں۔ اسے اپنی ذمے داریاں پوری کرنی تھیں۔ یوں اچانک کیسے اس کا زندگی سے ناطہ ٹوٹ گیا؟
نجی پاکستانی چینل نیوز ون کے کرائم رپوٹر عرفان کی ناگہانی موت کی خبر سن کر پاکستان کی صحافی برادری کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کررہی تھی۔ مجھے خود یقین نہیں آیا کیونکہ ابھی کچھ دن قبل اپنی قریبی دوست کی شادی میں انہیں خوش باش دیکھا تھا۔ ان کے چہرے سے ظاہر ہی نہیں ہورہا تھا کہ وہ کن کٹھن حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ سیلیفیاں بناتے ہوئے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
کیا خبر تھی کہ کچھ دنوں بعد یہ صحافی دنیا میں ہی نہ رہے گا۔ نیوز ون سے وابستہ عرفان اپنے دیگر صحافی کارکنوں کی طرح سات ماہ سے تنخواہوں سے محروم تھے۔ واجبات نہ ملنے کی وجہ سے پریشان تھے۔ لیکن پھر بھی ماتھے پر ایک شکن نہ آتی۔ اپنا کام اسی طرح پیشہ ورانہ انداز میں کرتے۔ لیکن روز گھر جاتے ہوئے سوچتے کہ اہل خانہ کو جیب خالی ہونے کا کیا جواز دوں گا؟ ضروریات زندگی کیسے پوری کروں گا؟ جب بچے کہیں گے ابو ہمارے لیے کیا لائے ہیں تو کیسے اپنے بچوں کو ٹالوں گا؟
مزید پڑھیں
-
’عوام کی بھوک حکومت کھا جائے گی‘Node ID: 443171
-
’چیچک‘ کو ’ماتا‘ کیوں کہا جاتا ہے؟Node ID: 444781
-
پلکوں کے بارے میں بات کرتے کرتے اچانک موضوع بدل ڈالاNode ID: 445511
-
پابندیوں کے خلاف لڑنے کا نیا طریقہNode ID: 445736
سات ماہ سے گھر والوں کو دلاسے دیتا آرہا تھا۔ یہ زندہ دل شخص اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ خراب معاشی حالات پر دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا۔۔۔ کسی کو کچھ نہ کہتا۔۔۔ دیکھنے والوں کو لگتا جیسے وہ بہت مطمئن ہیں۔۔۔ اپنی رپوٹس کے ذریعے عوام کے مسائل اجاگر کرنے والا اپنا بھرم رکھنے کے لیے اپنے مسائل سے کسی کو آگاہ نہ کر سکا۔۔۔ تنخواہ کی عدم ادائیگی پر دوسرے محکموں کے ملازمین کے احتجاج کو کور کرنے والا اپنے لیے کوئی آواز بلند نہ کرسکا۔ غربت کی وجہ سے اعصابی دباؤ برداشت کرتا رہا اور پھر اچانک زندگی کی بازی ہار گیا۔۔۔
معاشی استحصال کا شکار عرفان کرائم جیسی مشکل بیٹ کو انتہائی جاں شفانی سے نبھارہا تھا۔ صرف اپنے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کررہا تھا۔ عرفان کے انتقال سے ایک دن پہلے دوستوں کو واٹس ایپ پر بھیجا جانے والا پیغام جو سیلری کے لیے تھا وہی ان کا دکھ، کرب اور تکلیف سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
ان کا مسیج تھا کہ ’ڈیئر سیلری! پلیز کم بیک ٹو سٹے ود می! آئی مس یو۔۔۔ اسی اسٹیٹس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ معاشی حالات کے ستائے ہوئے تھے اور ان مشکلات کی وجہ سے ان کے قلب پر بوجھ ہی اتنا ہوگیا تھا کہ وہ دل کا دورہ پڑنے سے خالق حقیقی سے جا ملے۔
میڈیا مالکان کو کوئی یہ بتائے کہ آپ کے بڑے بڑے اینکرز جنہیں آپ لاکھوں روپے کی تنخواہوں سے نوازتے ہیں انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر ہزاروں روپے کمانے والے صحافیوں کو فرق پڑتا ہے۔ ان کے گھر کا چولہا اسی تنخواہ سے چل رہا ہوتا ہے، ان کے بچوں کی فیس اسی تنخواہ سے جاتی ہے۔ ان کے گھر کا کرایہ اسی سے ادا کیا جاتا ہے۔ بجلی گیس کے بل اسی تنخواہ سے ادا کیے جاتے ہیں۔ بیمار ہونے پر دوا بھی اسی سے آتی ہے۔ ان کی کمائی کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ عرفان کے دیرینہ دوست ان کے بچھڑنے پر مغموم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی ماہ سے تنخواہوں کا مطالبہ کرتے کرتے عرفان بھائی شاید تھک گئے تھے، رات سوئے تو صبح اٹھ ہی نہ سکے۔ دو ننھے بچوں اور ایک بیوی کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔
عرفان کے ایک اور دوست لکھتے ہیں
یہ نوکری ہے کہ سزائے موت،
سولی پر ہے کھڑا صحافی،
اداروں کے مالک،
اپنے ایک ہفتے کا خرچہ کم کر لیتے،
ہماری سات مہینوں کی تنخواہ آجاتی،
میری زندگی بچ جاتی،
میری تنظیمیں ہیں کہ
صحافیوں کی لاشیں گنتی جاتی ہیں،
’جدوجہد تیز ہو‘ کے نعرے لگانے سے پہلے
میرے گھر
میرے بچوں کو دیکھ لیتے،
مجھے بچا لیتے۔
پیارے عرفان، ہم سب شرمندہ ہیں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں