نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے آٹھ سال بعد 2007 میں ایک اور بحران تب پیدا ہوا جب جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایک بار پھر ایمرجنسی نافذ کردی۔ تین نومبر سے 15 دسمبر تک، 42 روز آئین معطل رہا۔ کئی جج بشمول چیف جسٹس نظر بند کر دیے گئے۔ میڈیا پر پابندی نافذ کردی گئی۔
مشرف نے بڑھتی ہوئی دہشت گردی اورعدلیہ کے انتظامی امور میں مداخلت کو ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے جواز بتایا۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو وہ چیف ایگزیکٹیو بنے تھے۔ بعد میں وہ تین بار صدر بنے۔ پہلی مرتبہ صدر رفیق احمد تارڑ کے استعفے کے بعد انہوں نے خود کو صدر مقرر کیا۔ دوسری مرتبہ 2002 میں خود کو صدر منتخب کرا لیا۔ تیسری مرتبہ صدر بن رہے تھے تو عدالت آڑے آ گئی۔
مزید پڑھیں
-
’ایسا تو مشرف کے دور میں بھی نہیں ہوا‘Node ID: 436151
-
’حکومت مشرف کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ نہیں‘Node ID: 445366
-
پرویز مشرف سے 5 دسمبر تک جواب طلبNode ID: 445566
قصہ یوں شروع ہوا کہ مارچ 2007 میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو مبہم الزامات کے تحت ہٹایا تو وکلا نے اس اقدام کوعدلیہ کی آزادی پر حملہ قراردیا اور اس کے خلاف ملک بھر میں تحریک چلائی جو ’کالے کوٹوں‘ کا احتجاج کے نام سے مشہور ہوئی۔
جولائی 2007 میں سپریم کورٹ کے تیرہ رکنی بنچ نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کردیا۔ پہلی مرتبہ ججز نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ جواباً جنرل مشرف نے تین نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر کے 61 ججز کو غیر فعال کردیا۔
2007 کے صدارتی انتخاب کے موقع پر جنرل مشرف کے مخالف امیدوار ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین احمد کی درخواست پر سوال کھڑا ہوا، کہ کیا مسلح افواج کا رکن آئینی طور پر صدارتی انتخاب لڑسکتا ہے؟ سپریم کورٹ نے اگرچہ مشرف کو راستہ تو دیا لیکن الیکشن کمیشن کو پابند کیا کہ وہ عدالت سے حتمی فیصلے تک سرکاری طور پر جیتنے والے صدارتی امیدوار کا اعلان نہ کرے۔ صدارتی انتخاب جنرل مشرف جیت گئے۔ پرویز مشرف کے صدارتی عہدے کی مدت 15 نومبر کو ختم ہو رہی تھی، لہٰذا عدالت نے پانچ نومبر کی تاریخ درخواست کی سماعت کے لیے مقرر کی۔
اس سے پہلے کہ عدالت کسی نتیجے پر پہنچتی، تین نومبر کی شام کو جنرل مشرف نے بطور آرمی چیف ایمرجنسی کا نفاذ کردیا۔ ملک کے آئین کو معطل کر کےعبوری آئینی حکم جاری کردیا۔ ججز کو ازسرنو حلف لینے کا کہا گیا۔ جن ججز نے ایسا نہیں کیا انہیں فارغ کردیا گیا۔
![](/sites/default/files/pictures/December/36506/2019/nawaz_and_mush-afp.jpg)
ایمرجنسی نافذ کرنے کے وقت جنرل مشرف کے پاس صدر اورآرمی چیف دونوں عہدے تھے۔
جنرل مشرف کے ان دو اعلانات کو غیراعلانیہ مارشل لا سے تعبیر کیا گیا۔ اس کے خلاف ملک بھر میں شدید ردعمل ہوا۔
عالمی قوتوں نے بھی اس اقدام کی مخالفت کی۔ امریکی صدر جارج بش نے کہا کہ جنرل مشرف وردی اتاریں اور انتخابات کرائیں۔ دولت مشترکہ نے آئین اور جمہوریت کی بحالی تک پاکستان کی رکنیت معطل کردی۔ مغرب کے دباؤ کےجواب میں مشرف نے کہا کہ وہ آرمی کا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اگر ان کے صدارتی انتخاب لڑنے میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔
ایمرجنسی نافذ کرنے کے 25 روز بعد انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ جنرل کیانی کے حوالے کیا اور صدر کے عہدے کا حلف اٹھا کر فل ٹائم سیاست دان بن بیٹھے۔
![](/sites/default/files/pictures/December/36506/2019/000_del157151.jpg)