Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ صرف مسلمانوں کو بچانے کی لڑائی نہیں‘

انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف دارالحکومت دہلی اور معاشی مرکز ممبئی سمیت مختلف بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
جمعرات کو دہلی میں تاریخی لال قلعے پر مظاہرے کی کال دی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ہے جبکہ بہت سے سرکردہ رہنماؤں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
دہلی کی لائف لائن کہی جانے والی میٹرو ٹرین سروس کے ایک درجن سے زیادہ سٹیشنوں کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ شہر کے مختلف حصے میں انٹرنیٹ کی سہولیات روک دی گئی ہے یا پھر اس کی رفتار انتہائی سست کر دی گئی ہے۔ مقامی چینل نیوز 18 کے مطابق حکام نے ٹیلی کام کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ بعض علاقے میں انٹرنیٹ کے علاوہ فون اور میسجنگ سروسز بھی بند کر دیں۔

پہلی بار شہریت کے بل کے خلاف پرزور مخالفت شروع ہوئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

بند کیے جانے والے سٹیشنوں میں وہ سٹیشن بھی شامل ہیں جو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قریب ہیں تاکہ وہاں سے لوگ لال قلعے کے احتجاجی مظاہرے میں شرکت نہ کر سکیں۔
معروف سماجی کارکن اور سوراج ابھیان کے بانی یوگیندر یادو، جے این ایو کے سابق طلبہ اور ایکٹیوسٹ عمر خالد، دہلی کی سابق وزیراعلیٰ شیلا ڈکشت کے بیٹے اور سابق رکن پارلیمان سندیپ ڈکشت کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
یوگیندر یادو نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’19 دسمبر کو گرفتار ہونا ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کیونکہ یہ مجاہدین آزادی اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل کے لیے ایک حقیر سی خراج تحسین ہے۔‘
خیال رہے کہ سنہ 1927 میں اسی دن ان دونوں نوجوان رہنماؤں اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل کو انگریزوں نے پھانسی دی تھی۔
یوگیندر یادو نے لکھا ہے کہ ہزاروں مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے اور ہزاروں راستے میں ہیں اور انھیں کہا گیا ہے کہ انھیں دہلی کے مضافاتی علاقے بوانا لے جایا جا رہا ہے۔
گذشتہ روز شام کو جے این یو کی سٹوڈنٹ یونین کے سابق سربراہ کنہیا کمار نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں احتجاج میں شامل طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف مسلمانوں کو بچانے کی لڑائی نہیں ہے بلکہ پورے ملک کو بچانے کی لڑائی ہے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے واضح کیا کہ شہریت کے ترمیمی قانون سے کہیں زیادہ این آر سی (نیشنل ریجسٹر آف سٹیزنس) ہے اور اس کے خلاف ’پوری قوت سے لڑنا ہے۔‘
انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں بھی احتجاجی مظاہرے کی کال دی گئی ہے لیکن وہاں کی بی جے پی حکومت نے دارالحکومت بنگلور سمیت پوری ریاست میں حکم امتناہی جاری کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے تاکہ لوگ زیادہ تعداد میں شرکت نہ کر سکیں۔
دوسری جانب شمال مشرقی ریاست آسام میں جہاں سے پہلی بار شہریت کے بل کے خلاف پرزور مخالفت شروع ہوئی تھی اور جہاں نصف درجن لوگوں کی جانیں بھی گئی تھیں وہاں کی طلبہ تنظیم نے پورے ہفتے کا پروگرام جاری کیا ہے۔
آل آسام سٹوڈنٹس یونین (آسو) نے کہا کہ کہ 21 تاریخ کو خواتین پوری ریاست میں دھرنے پر بیٹھیں گی جبکہ عوام کا مظاہرہ 23 دسمبر کو ہوگا اور 24، 26 اور 28 دسمبر کو ریاست بھر میں مظاہرے کیے جائیں گے۔

پولیس کی جانب سے مظاہرین کی پکڑ دھکڑ کی جا رہی ہے (فوٹو اے ایف پی)

خیال رہے کہ ریاست بہار اور مغربی بنگال میں بائیں بازو کی جماعت کی جانب سے مظاہرے کی کال دی گئی ہے جبکہ سنیچر کے روز حزب اختلاف کی اہم پارٹی راشٹریہ جنتا دل نے مظاہرے کی کال دی ہے۔
دہلی میں سرکردہ دلت نیتا چندر شیکھر نے جمعے کو تاریخی جامع مسجد سے جنتر منتر جانے کی کال دی ہے لیکن یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جس طرح لال قلعے سے آئی ٹی او تک جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی اسی طرح جامع مسجد سے نکلنے والے جلوس کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔

شیئر: