انڈیا کے دونوں ایوانوں سے شہریت کا متنازع ترمیمی بل (سی اے بی) منظور ہو گیا ہے لیکن اسے ملک اور بیرون ملک کے مختلف گوشوں میں مسلم مخالف بل کہا جا رہا ہے اور اسی لیے اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ 'انڈین حکومت نے لاکھوں مسلمانوں کو شہریت کے مساوی حق سے محروم رکھنے کے لیے گراؤنڈ تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔'
اس کے علاوہ مذہبی آزادیوں پر امریکہ کی وفاقی کمیشن نے شہریت کے بل کو ایک 'غلط سمت میں خطرناک قدم' قرار دیا ہے۔
بنگلہ دیش اور پاکستان نے بھی اس بل کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور بنگلہ دیش نے تو اپنے وزیر خارجہ کا جمعرات سے شروع ہونے والا دورہ بھی منسوخ کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالمومن انڈیا میں ایک کانفرنس میں شرکت اور وہاں کلیدی خطاب کرنے والے تھے جبکہ ان کی انڈیا کے وزیر خارجہ سے حیدرآباد ہاؤس میں ملاقات بھی طے تھی۔
مزید پڑھیں
-
’انڈیا میں گاندھی پر جناح کی جیت!‘Node ID: 447591
-
انڈیا: متنازع بل کے خلاف مظاہرےNode ID: 447671
-
انڈیا، شہریت بل راجیا سبھا سے بھی منظورNode ID: 447871
بنگلہ دیش سے موصول ہونے والی خبروں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہاں کے وزیر داخلہ کا دورہ انڈیا بھی غیر یقینی ہے اور یہ سب انڈیا کے ترمیمی بل کا نتیجہ ہے۔
ہر چند کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے حالیہ رشتے کو اب تک کا 'بہترین اور سنہرا دور' کہا جا رہا ہے لیکن سی اے بی کی منظوری کے بعد اس میں دراڑ نظر آنے لگی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر چہ یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اس سے بین الاقوامی سطح پر ایک پیغام جاتا ہے کہ انڈیا نے یہ قانون اس لیے بنایا کیونکہ اس کے پڑوسی ممالک میں اقلیتیں تشدد کا شکار ہیں اور یہی بات جو بنگلہ دیش کو ناگوار گزری ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں کسی بھی مذہبی اقلیت کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے کہا کہ 'کم ہی ایسے ممالک ہیں جہاں بنگلہ دیش جتنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہو۔ اگر وہ (امت شاہ) چند ماہ ہمارے ملک میں رہیں تو وہ خود ہمارے یہاں کی مثالی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو دیکھیں گے۔'
Dr AK Abdul Momen, Bangladesh Min of Foreign Affairs says,“There are a very few countries where communal harmony is as good as in Bangladesh. If he (Home Min Amit Shah) stayed in Bangladesh for few months, he would see exemplary communal harmony in our country": Bangladesh media pic.twitter.com/TGpTDeYahu
— ANI (@ANI) December 12, 2019
بدھ کے روز ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بل پیش کرتے ہوئے انڈیا کے وزیر داخلہ اور اس بل کے روح رواں امت شاہ نے کہا کہ یہ بل مسلم مخالف نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے لیکن انھوں نے پڑوسی ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی بات کی۔
اس سے قبل جب لوک سبھا میں اس بل کو پیش کیا گیا تو کانگریس اور دیگر جماعتوں نے اس کی کھلی مخالفت کی لیکن وہاں بی جے پی کو اکثریت حاصل تھی جبکہ بدھ کے روز اسے راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل نہیں تھی تاہم اس بل کو منظور کر لیا گیا۔
بعض جماعتوں نے اس میں ترمیم کی بات کی تو بعض نے اسے مخصوص کمیٹی کے سامنے نظر ثانی کے لیے پیش کرنے کی دلیل دی۔
بل کی مخالفت کرنے والوں نے اسے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف قرار دیا بلکہ انڈین آئین کی روح کے منافی اور سیکولرزم سے متصادم قرار دیا۔

شہریت کا ترمیمی بل ہے کیا؟
انڈیا نے سنہ 1955 میں شہریت کا قانون متعارف کرایا تھا جس میں وقتاً فوقتاً ترامیم کی گئی تھی۔ حالیہ ترمیم میں بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی چھ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو انڈین شہریت دیے جانے کی بات کی گئی ہے۔
ان مذہبی برادریوں میں ہندو، بودھ، جین، پارسی، مسیحی اور سکھ شامل ہیں لیکن مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے یعنی ان ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو انڈیا میں شہریت حاصل کرنے کا حق نہیں ہوگا۔
انڈیا میں شہریت حاصل کرنے کا اب تک یہ قانون تھا کوئی بھی شخص انڈیا میں 11 سال گزار کر شہری بننے کا اہل ہو جاتا تھا اور اگر وہ شہریت کے لیے درخواست دے تو حکومت اسے منظور کر سکتی تھی۔ لیکن نئے قانون کے تحت پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتی برادریوں کو چھوٹ دی گئی ہے اور 11 سال کی مدت کو کم کرکے پانچ سال کر دی گئی ہے۔
اس سے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والی مذکورہ برادریاں مستفیض ہو سکیں گی جو 31 دسمبر سنہ 2014 سے قبل انڈیا آئیں۔ انڈیا کے ایک انٹیلی جنس ادارے کے مطابق اس سے ابھی 30 ہزار سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مودی حکومت کی کابینہ نے اس بل کو چار دسمبر کو منظور کیا جبکہ نو دسمبر کو یہ لوک سبھا میں منظور ہو گیا اور پھر 11 دسمبر کو راجیہ سبھا میں بھی منظور ہو گیا۔

آئین سے کس طرح متصادم؟
اس نئے قانون کی مخالفت کرنے والوں نے اسے آئین کے آرٹیکل پانچ، دس، چودہ اور پندرہ سے متصادم قرار دیا ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمان ادھیر رنجن نے کہا کہ یہ بل انڈیا کے آئین کی مختلف شقوں کے خلاف ہے۔ انڈیا آئین کی روح سے ایک سیکولر ملک ہے جہاں مذہب کی بناد پر تفریق اور امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا اور اس ترمیمی بل میں مسلمانوں کو واضح طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
جب انڈیا کا آئین 26 جنوری سنہ 1950 کو نافذ کیا گیا تو اس میں انڈیا کی شہریت کی تعریف جس طرح کی گئی اسے آرٹیکل پانچ میں بیان کیا گیا ہے جس کی رو سے جو شخص انڈیا میں پیدا ہوا، جس کے والدین میں سے کوئی ایک انڈیا میں پیدا ہوئے یا جس نے آئین کے نفاذ سے قبل پانچ سال مسلسل انڈیا میں گزارے وہ انڈیا کا شہری ہوگا۔
آرٹیکل 14 اور 15 میں آئین کی نظر میں مساوات کا ذکر ہے یعنی قانون کی نظر میں انڈیا کی سرزمین پر کوئی بھی شخص مساوی حقوق کے تحفظ سے محروم نہیں۔ آرٹیکل 15 میں مذہب، ذات پات، نسل، جنس، جائے پیدائش یا ان میں سے کسی بھی بنیاد پر غیر امتیازی سلوک کی بات کی گئی ہے۔
اس طرح قانون دانوں کا کہنا ہے کہ ترمیم میں چھ برادریوں کا ذکر کر کے اور مسلمانوں کو اس میں شامل نہ کر کے اس کی مخالفت کی گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر چہ یہ بل دونوں ایوانوں سے پاس ہو گیا لیکن سپریم کورٹ میں اس کا جائز قرار پانا مشکل ہوگا کیونکہ یہ براہ راست مسلم مخالف ہے اور آئین سے متصادم بھی۔

یہ کس طرح مسلم مخالف ہے؟
بظاہر یہ بل مسلم مخالف نہیں ہے لیکن کشمیر سے ایوان بالا کے رکن پارلیمان فیاض احمد میر نے کہا کہ 'جب سے یہ سرکار بنی تب سے ہم دیکھ رہے ہیں، چاہے وہ ٹرپل طلاق بل ہو، چاہے وہ 370 کا معاملہ ہو، چاہے آج جو یہ بل لایا گیا ہو، اس بل کو جو لانے کا طریقہ ہے، اس میں سیدھا ایک کمیونٹی، جس سے میں بھی آتا ہوں، مسلم کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں پاکستان، افغانستان یا بنگلہ دیش سے اب کوئی مسلمان نہیں آئے گا کیونکہ انھوں نے دیکھ لیا ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست کے ساتھ کیا ہوا۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بل کو اگر این آر سی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ بل مسلم مخالف بل ہے۔
انڈیا نے حال ہی میں ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن نافذ کیا یعنی ریاست کے شہری کون ہیں اس کی نشاندہی کرائی جس میں تقریبا 20 لاکھ افراد انڈین شہریت کی فہرست سے باہر ہو گئے جس میں ہندو مسلمان دونوں شامل ہیں اور اکثریت ہندؤں کی بتائی جا رہی ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس ترمیمی بل سے ہندوؤں کو تو شہریت دے دی جائے گی لیکن برسوں سے آباد مسلمانوں کو محض دستاویزات کی کمی کے سبب غیر شہری، غیر ملکی، غیر قانونی در انداز قرار دے کر کیمپوں میں رکھا جاسکتا ہے۔
کانگریس کے رکن آنند شرما نے ایوان بالا میں اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی مخالفت کی وجہ 'سیاسی کے بجائے آئینی اور اخلاقی ہے۔' انھوں نے اس بل پر بات کرتے ہوئے این آر سی کا ذکر بھی کیا اور یہ سوال پوچھا کہ آپ ملک کو کس جانب لے جا رہے ہیں؟
