اجیر قانون کی بدولت غیر ملکی کارکن قانونی طور پر کسی دوسری جگہ کام کر سکتے ہیں (فوٹو: پنٹریسٹ)
سعودی عرب میں وزارت محنت و سماجی بہبود آبادی ملک میں کام کرنے والے افراد کے لیے ورک پرمٹ جاری کرنے کی ذمہ دار ہے اور ورک پرمٹ کے بغیر رہائشی کارڈ یعنی 'اقامہ' جاری نہیں کیا جا سکتا۔
غیر ملکی کارکنوں کے لیے ورک پرمٹ کے اجراء اور تجدید کے لیے مختلف شرائط ہیں تاہم اس مضمون میں جس قانون کا ذکر کیا جا رہا ہے اسے ’اجیر‘ کہا جاتا ہے۔ اجیر کا مطلب ’اجرت یا معاوضہ لے کر کام کرنے والا‘ ہے۔
وزارت محنت کی جانب سے ’اجیر‘ کی اصطلاح وقت کی ضرورت کے تحت ایجاد کی گئی ہے۔ اس قانون کا بنیادی مقصد ان اداروں کو فائدہ پہنچانا ہے جو وزارت محنت کے قانون ’نطاقات‘ کے مطابق کام کر رہے ہیں یعنی ان کے پاس سعودی کارکنوں کی تعداد مقررہ معیار سے معمولی کم ہے۔
اجیر کے قانون سے جہاں ان اداروں اور کمپنیوں کو فائدہ ہوتا ہے جو وقتی طور پر مارکیٹ میں کام نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کارکنوں کو فارغ بٹھا کر تنخواہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ اس قانون سے ان غیر ملکی کارکنوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے جو ایسی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں۔
اجیر قانون کی بدولت غیر ملکی کارکن قانونی طور پر کسی دوسری جگہ کام کر کے اپنی محنت کی اجرت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح یہ قانون کارکن اور سرمایہ دار دونوں کے لیے مفید ہے۔
اجیر کن پیشوں کے لیے؟
سعودی عرب میں قانونی طور پر ورک ویزے پر مقیم غیر ملکیوں کے اہل خانہ کا اقامہ مرافقین یعنی ڈیپینڈنڈس کا ہوتا ہے جس پر درج ہوتا ہے کہ ’حامل ہذا کام کرنے کا اہل نہیں‘۔
تاہم اجیر کے قانون سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے مذکورہ بالا افراد مثلاً کسی غیر ملکی کارکن کی اہلیہ اور 18 برس سے بڑے بچے عارضی طور پر کام کر کے پیسے کما سکتے ہیں۔
اجیر سے شعبہ تعمیرات، زراعت، صنعت، عام کارکن اور کلرک، مزدور اور اسی قسم کے دیگر پیشوں سے منسلک کارکن مستفید ہوسکتے ہیں۔
مذکورہ پیشوں پر مملکت میں قانونی طور پر مقیم ایسے افراد جن کے اداروں یا کمپنیوں میں کام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے کارکن دوسری جگہ ملازمت کرنے کے لیے اجیر کارڈ جاری کروا سکتے ہیں۔
مملکت میں حج سیزن کے دوران عارضی طور پر کام کے وسیع مواقع ہوتے ہیں جو ’اجیر‘ کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
قانون کے مطابق اگر کوئی کارکن اجیر کارڈ کے بغیر کسی دوسری جگہ کام کرتا ہوا چیکنگ کے دوران پکڑا جائے تو اسے 20 ہزار ریال جرمانہ اور ملک بدری کی سزا ہوتی ہے اس لیے اجیر کارڈ کا حصول لازمی اور محفوظ طریقہ تصور کیا جاتا ہے۔
غیر ملکیوں کے اہل خانہ کے لیے اجیر کی سہولت
وہ غیر ملکی جن کے اہل خانہ مملکت میں مقیم ہیں اور وہ کسی تعلیمی ادارے یا حج سیزن میں عارضی طور پر کام کرنے کے خواہاں ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اجیر کارڈ بنوا کر محفوظ اور قانونی طور پر کام کرنے کے اہل بن جائیں۔
عام طور پر غیر ملکیو ں کے اہل خانہ سکولوں میں اساتذہ کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ اساتذہ کے لیے اجیر کارڈ وزارت تعلیم کی منظوری کے بعد جاری کیا جاتا ہے۔
قانون محنت کے مطابق عارضی ورک پرمٹ یعنی اجیر کی ماہانہ فیس 160 ریال ہے۔ فیس کی ادائیگی کے بعد وزارت محنت کی جانب سے اجیر اجازت نامہ جاری کیا جاتا ہے۔ اجیر کی سہولت ایک برس کے لیے ہوتی ہے تاہم اس میں مزید توسیع ممکن ہے۔
وزٹ ویزے پر آنے والوں کے لیے اجیر کی سہولت
مملکت کے امیگریشن قانون کے مطابق زیارت وزٹ ویزے پر آنے والے اہل نہیں ہوتے کہ وہ کسی بھی قسم کا کام کریں۔ ورکنگ وزٹ ویزے پر آنے والے بھی اس کیٹگری میں شامل ہیں۔
ایوان شاہی سے یمن اور شام کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہاں سے آنے والے مہاجرین کو خصوصی وزٹ ویزے جاری کیے جاتے ہیں جو چھ ماہ کے لیے ہوتے ہیں تاہم ان میں ہر چھ ماہ بعد توسیع کروائی جا سکتی ہے۔
سعودی حکومت نے قانونی وزٹ ویزے پر مقیم یمنی اور شامی باشندوں کو یہ سہولت دی ہے کہ وہ اجیر کارڈ حاصل کر کے کسی بھی مناسب جگہ کام کر سکتے ہیں۔
ان ممالک کے علاوہ وزٹ ویزے پر آنے والے کسی بھی دوسرے ملک کے باشندوں کو اجیر کارڈ جاری نہیں کیا جاتا۔
نوٹ: آئندہ مضمون میں قارئین کو ان اداروں کے بارے میں بتایا جائے گا جو اجیر کی سہولت حاصل کرنے کے اہل ہیں اور اجیر کن کارکنوں کے لیے مفید ہے؟
اگلے مضمون میں یہ بھی بتایا جایا گا کہ کیا ایسے کارکن جن کے لیبر کورٹ میں مقدمات زیر سماعت ہیں وہ اجیر سے استفادہ کر سکتے ہیں؟