Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں ہروب والے کارکن تاحیات بلیک لسٹ

ہروب والے کارکنوں پر 50 ہزار ریال جرمانہ ہوتا ہے۔ فوٹو: العربیہ
سعودی عرب میں وزارت محنت کے قانون کے مطابق کام سے فرار یعنی ہروب والے کارکن کو ملازمت دینے والے سخت سزا کے حقدار قرار پاتے ہیں۔
ایسے کارکنوں کو جن کا ہروب درج ہو انہیں قید و جرمانے کے علاوہ مملکت کے لیے مستقل طور پر بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ تاحیات کسی ویزے پر مملکت نہیں آسکتے۔
جوازات کے مرکزی سسٹم میں ہروب کو کفیل 15 دن کے اندر کینسل کرانے کا مجاز ہے۔ مذکورہ مدت گزرنے کے بعد جس کا ہروب لگایا گیا ہے سسٹم میں اس کی فائل کو سیز کر دیا جاتا ہے۔ 
وزارت محنت اور جوازات (محکمہ پاسپورٹ) کی جانب سے ہروب پر سخت کارروائی کا قانون منظور کر لیا گیا ہے۔
ایسے کارکن جو قانون محنت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہوئے اپنے آجر یعنی کفیل کے پاس سے فرار ہو کر دوسری جگہ ملازمت کرتے ہیں، غیر قانونی کارکن کے زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں۔
قانون محنت کے مطابق غیر قانونی تارکین کو ملازمت فراہم کرنے والے ادارے یا افراد کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جاتی ہے۔
ایسے  ادارے، فیکٹری یا شخص جس نے ہروب والے کارکنوں کو ملازمت فراہم کی ہو، دوران تفتیش اس کے پکڑے جانے پر ادارے کے ڈائریکٹر یا ذمہ دار شخص کو اس پر ایک لاکھ  ریال جرمانہ اور چھ ماہ کی قید ہوگی۔
ادارے کے ذمہ دار  جس نے غیر قانونی افراد کو ملازمت فراہم کی ہو، اسے قید و جرمانے کے علاوہ مملکت سے بے دخل کر دیا جائے گا جبکہ ادارے پر آئندہ پانچ برس کے لیے ویزوں کا اجراء بند کر دیا جائے گا۔
ہروب والے کارکنوں پر سزا کا اطلاق تمام پیشوں پر کیا جائے گا۔ مثلاً گھریلو ملازمین جن میں فیملی ڈرائیور، خادمہ، فیملی نرس، ہوم ٹیوٹر وغیرہ کے پیشے شامل ہیں۔ 

ہروب سے بچنے کے لیے کارکن کو چاہیے کہ وہ لیبر کورٹ میں درخواست دائر کر دے۔ فوٹو: عرب نیوز

ہروب والے کارکنوں کو محض مملکت سے ہمیشہ کے لیے بے دخل ہی نہیں کیا جاتا بلکہ ان پر 50 ہزار ریال جرمانہ اور چھ ماہ کی قید کی سزا بھی ہوتی ہے۔ جرمانہ ادا کرنے اور قید کاٹنے کے بعد ان کارکنوں کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ 

ہروب سے کیسے بچا جائے؟

ہروب کی اصطلاح ایسے غیر ملکی کارکنوں کے لیے ہوتی ہے جو اپنے آجر کے پاس سے فرار ہو جاتے ہیں۔ کفیل کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ان کے کارکن کہاں ہیں۔
سعودی عرب میں قانون محنت کے مطابق کفیل یا آجر اس امر کا ذمہ دارہے کہ وہ اپنے زیر کفالت آنے والے غیر ملکی کارکنوں کے اقامے، ورک پرمٹ اور قیام و طعام کے علاوہ دیگر ضروریات کا بھرپور خیال رکھے۔ 
ایسے غیر ملکی کارکن جو عربی سے واقف نہیں ہوتے اور انسانی تجارت کرنے والوں کے جال میں پھنس کر اپنی جمع پونچی لٹا بیٹھتے ہیں وہ جب اپنے ملک سے مزدوروں کے ویزوں پر آتے ہیں تو انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ یہاں کتنی مشکلات کا سامنا انہیں کرنا پڑتا ہے۔
چرواہے یا گھریلو ڈرائیور کے ویزے پر آنے کے بعد جب انہیں معاہدے کے مطابق اجرت نہیں ملتی تو وہ دوسری جگہ کام تلاش کر کے اپنے کفیل سے فرار ہو جاتے ہیں۔

ہروپ؎ب والے کارکن کو نوکری دینے پر ادارے کو بھی بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کارکن کے غائب ہونے پر کفیل ان کا ہروب لگا دیتا ہے جس کے بعد ان کے لیے مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔
انفرادی کفیلوں کے پاس کام کرنے والے کارکنوں کو چاہیے کہ وہ ورک ایگریمنٹ یعنی معاہدہ ملازمت کو سنبھال کر رکھیں اور کسی بھی مشکل میں اپنے سفارتخانے یا قونصلیٹ سے رجوع کریں۔
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ خود ساختہ ’آزادہ ویزے‘ (اس طرح کے کسی ویزے کا وجود نہیں) پر آنے والے غیر ملکی افراد جب یہاں آتے ہیں تو ان کا اپنے کفیل یا اپنے ایجنٹ سے اختلاف ہو جاتا ہے جس پر کفیل ان کا ہروب لگا دیتا ہے۔
ایسی صورت میں کارکن کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے سفارتخانے کے ذریعے لیبر کورٹ میں درخواست دائر کر دے تاکہ اس کا ہروب نہ لگایا جا سکے۔

کیا ہروب لگا ہے؟

یہ کس طرح معلوم کیا جائے کہ ہروب لگا ہے یا نہیں۔ جوازات کے سسٹم سے پرنٹ حاصل کرنا کافی دشوار مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ قانون کے مطابق کفیل ہی پرنٹ حاصل کر سکتا ہے۔

کفیل سے جھگڑا ہونے پر بھی نام ہروب میں ڈلوا دیا جاتا ہے۔ فوٹو: رؤئٹرز

ایسی صورت میں اگر خدشہ ہو کہ ہروب لگایا جا چکا ہے تو کارکن کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے سفارتخانے سے رجوع کر کے ان کے ذریعے معلوم کرائے۔
ہروب لگنے کی صورت میں اگر 15 دن کے اندر کینسل نہیں کرایا جائے گا تو معاملہ دشوار ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
اگر ہروب ناجائز طور پر لگایا گیا ہے تو کارکن کا حق ہے کہ اسے چیلنج کرے تاہم اس کے لیے بھی سفارتخانے کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے جس کے ذریعے ہی کارکن لیبر کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔

شیئر: