عارف علوی نے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس پر ہمیں تشویش ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ انڈیا میں ان کے رشتہ داروں سمیت مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے جس پر پاکستان کو تشویش ہے۔
ایوان صدر میں یوم کشمیر کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں حکومت مسلمانوں کے ساتھ ویسے ہی امتیازی سلوک کر رہی ہے جس طرح نازی جرمنی نے یہودیوں کے ساتھ بدسلوکی کے آغاز میں کیا تھا۔
’انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس پر ہمیں تشویش ہے۔ انڈیا میں میرے رشتہ داروں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے‘
یاد رہے کہ 1947میں قیام پاکستان کے بعد بہت سارے لوگ انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ ایسے لوگوں کے خاندان کے کچھ افراد انڈیا میں ہی رہ گئے۔
صدر عارف علوی کے والد بھی انڈیا سے پاکستان آئے تھے۔ ڈاکٹر عارف علوی کے ویریفائیڈ فیس بک پیج کے مطابق ان کے والد الہی علوی ہجرت سے قبل انڈیا میں دانتوں کے معالج تھے اور ان کے مریضوں میں پہلے انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو بھی شامل تھے۔
اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں عارف علوی نے بتایا تھا کہ انکے رشتہ دار لکھنو اور دہلی میں رہتے ہیں۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ نا صرف کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل باب ہے بلکہ انڈیا کے مسلمان بھی تقسیم کے نامکمل باب کا حصہ ہیں۔
تقریب سے خطاب میں صدر مملکت نے وہاں آئے مغربی ممالک کے سفرا کو نازی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو یاد کرواتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انڈیا میں نئے شہریت قانون کے تحت مسلمانوں کو امیتازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے پہلے ان کی شہریت پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔
پھر ان کو علیحدہ بستیوں میں محدود کیا جائے گا اور چند اطلاعات کے مطابق انڈیا نے مسلمانوں کے لیے الگ جیلیں بھی بنا لیں ہیں۔
عارف علوی نے کہا کہ جس طرح حال ہی میں مظاہرین پر ہندو انتہاپسند نوجوان نے پستول تانا اس طرح نہتے لوگوں پر دنیا میں کوئی بھی گن اٹھاتا تو پولیس اسے شوٹ کر دیتی مگر انڈیا میں سب نے دیکھا پولیس نے اسے باحفاظت ٹرک میں بٹھایا۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ انڈیا کشمیر میں ظلم کی تاریخ رقم کر رہا ہے۔
اگست 2019 میں کشمیر کی علیحدہ آئینی حثییت ختم کرنے کے بعد انڈیا نے وہاں لوگوں کی آمدورفت اور انٹرنیٹ پر جو پابندیاں لگائی ہیں پاکستان کا مطالبہ ہے کہ انہیں ختم کیا جائے اور بین الاقوامی میڈیا، مبصرین اور پارلیمانی وفود کو ہر علاقے میں جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ کیا کشمیر میں سب نارمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی، قانونی اور سفارتی مدد جاری رکھے گا۔