اضافی کام سے تنخواہ کے برابر یا اس سے زیادہ آمدنی ہورہی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
سعودی عرب میں آمدنی بڑھانے کے لیے سرکاری اور نجی اداروں کے بیس فیصد ملازم پارٹ ٹائم کام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
آن لائن کاروبار، گھریلو مصنوعات، نجی اداروں کے ساتھ آزادانہ کام اور ایپلی کیشن ٹیکسیوں کے نظام نے سعودیوں کو روزگار کے اضافی مواقع مہیا کیے ہیں۔
الوطن اخبار نے اضافی ملازمت کے حوالے سے سعودی ملازمین کی جائزہ رپورٹ شائع کی ہے۔
جائزے کے مطابق بیشتر سعودی کارکن ملازمت کے ساتھ آن لائن کاروبار کر رہے ہیں۔ وزارت تجارت 25.501 آن لائن کاروباری مراکز کو لائسنس جاری کیے ہیں۔ ایسے تجارتی مراکز بھی ہیں جو وزارت تجارت سے لائسنس کے بغیر بھی آن لائن کاروبار کر رہے ہیں۔
آن لائن کاروبار سے منسلک کئی سعودیوں نے بتایا ’انہیں اضافی کام سے اپنی تنخواہ کے برابر یا اس سے کہیں زیادہ آمدنی ہورہی ہے۔‘
بہت سارے ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے یہ کام کمپیوٹر اور نجی ٹی ٹیلیفون کی بنیاد پر شروع کیا۔ آن لائن ایپلی کیشن حاصل کرکے کام کر رہے ہیں۔ اس پر کمیشن مل جاتا ہے۔‘
دیگر لوگوں نے بتایا کہ ’دس ہزار ریال کے سرمائے سے کاروبار شروع کیا۔ تھوک میں سامان طلب کرتے ہیں اور آن لائن تجارتی مرکز کے توسط سے اسے فروخت کررہے ہیں۔‘
دو ہزار سے زیادہ سعودی نوجوان ایپلی کیشن کیب سے منسلک ہیں۔ یہ نوجوان ملازمت کے ساتھ ایپلی کیشن ٹیکسی چلا رہے ہیں۔ فارغ وقت میں انہیں اچھی خاصی آمدنی ہورہی ہے۔
بعض نوجوانوں نے شکوہ کیا کہ جب سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملی ہے ایپلی کیشن ٹیکسیوں سے ہونے والی آمدنی کم ہونے لگی ہے۔
سعودی تجارتی عالمی کونسل کے رکن عبداللطیف النمر نے بتایا کہ ’سعودی عرب میں پارٹ ٹائم ملازمت کا کلچر بہت محدود پیمانے پر تھا تاہم زندگی کے بڑھتے ہوئے تقاضوں نے بہت سے نوجوانوں کو پارٹ ٹائم کام پر مجبور کردیا ہے۔‘
کم از کم بیس فیصد سعودی ملازم پارٹ ٹائم کام کرنے لگے ہیں۔
بعض مقامی شہریوں نے بتایا ’ملازمت چھوڑنے کی کوشش میں ہیں۔ ملازمت کے ساتھ اپنا کاروبار جمانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کئی نے یہ بھی کہا کہ وہ ملازمت سے قبل خود اپنا کاروبار کرتے رہے ہیں۔‘