کھانا پکانے کے فن میں سعودی مرد خواتین کے حریف بننے لگے
کھانا پکانے کے فن میں سعودی مرد خواتین کے حریف بننے لگے
جمعرات 13 فروری 2020 20:31
وزارت ثقافت چاہتی ہے کہ مملکت میں کھانا بنانے کا شعبہ ترقی کرے(فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب میں ایک طرف خواتین ایسے شعبوں میں قدم بڑھا رہی ہیں جو ماضی قریب تک مردوں کے لیے مخصوص مانے جاتے تھے یا بقول خواتین ان پر مردوں کی اجارہ داری ہے۔
الوطن اخبار کے مطابق دوسری جانب مرد حضرات ایسے کاموں میں اپنے جوہر دکھانے لگے ہیں جو مشرقی دنیا میں خواتین کے لیے مخصوص مانے جاتے ہیں۔
انہی میں سے کھانا پکانے کا فن بھی شامل ہے۔
دوستوں کو کھانا بنانے کا طریقہ سکھانے کی پیشکش کی۔ (فوٹو سوشل میڈیا)
سعودی نوجوان مملکت میں کھانا پکانے کے فن کو جدید خطوط پر استوار کرنے لگے ہیں۔ نوجوانوں کے ایک گروپ نے بیرون مملکت جا کر کھانا پکانے کا فن سیکھا۔ ان کا خواب تھا کہ وہ اس شعبے میں کمال پیدا کریں۔
سعودی نوجوانوں نے کھانا بنانے کا فن سیکھ کر سوشل میڈیا پر اپنے اکاؤنٹ کھولے۔ انہوں نے دوستوں کو کھانا بنانے کا طریقہ سکھانے کی پیشکش کی۔ کئی نوجوانوں نے کھانا بنانے کے طریقے سکھانے کو اپنا پیشہ بنالیا۔ کاروبار کرنے لگے۔ اس سے انہیں اچھی خاصی آمدنی بھی ہونے لگی۔
ساتھی نوجوانوں اس میدان میں آئیں زبردست آمدنی ہوگی۔(فائل فوٹو سعودی گزٹ)
سعودی شیف غسان حیدری نے الوطن اخبار سے گفتگو میں بتایا کہ اسے کھانا بنانے کا شوق پانچویں جماعت سے تھا۔ سب سے پہلے جو کا سوپ بنانا سیکھا اس میں وہ ماہر ہوگیا۔ رفتہ رفتہ اور کئی ڈشیں تیار کرنے کا ہنر اسے آ گیا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ اعلیٰ درجے کا شیف بنے۔ اس نے کھانا بنانے کے فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔
غسان حیدری نے بتایا کہ سعودی معاشرے میں کھانا بنانے کا ہنر خواتین کے لیے مخصوص رہا ہے۔ مرد حضرات کو کھانا بناتے ہوئے دیکھ کر برا مانا جاتا تھا۔ اب صورتحال بدلنے لگی ہے۔
سعودی عرب میں مرد باورچی بھی اچھی خاصی تعداد میں تیار ہوچکے ہیں۔ اب معاشرہ انہیں بری نگاہ سے نہیں دیکھتا۔
مجھے کھانا بنانے کا شوق تھا ۔ اب یہ میرا پیشہ ہے۔(فوٹو ٹوئٹر)
ایک اور سعودی شیف محمد درویش نے بتایا کہ اس نے سب سے پہلے الصیادیہ ڈش تیار کرنا سیکھی۔
’یہ چاولوں کی ڈش ہے جو ماہی گیروں میں معروف ہے۔ میں نے یہ ڈش پندرہ برس پہلے بنانا سیکھی تھی۔ مجھے کھانا بنانے کا شوق تھا ۔ اب یہ میرا پیشہ ہے۔‘
محمد درویش نے بتایا کہ بیشتر سعودی نوجوان انواع و اقسام کے چاول اور باربی کیو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔
’دس برس پہلے تک مردوں کا کھانا بنانا معیوب سمجھا جاتا تھا اس لیے مشکلات بھی پیش آئیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔ مجھے اپنے اس ہنر سے اچھی خاصی آمدنی ہورہی ہے۔‘
سعودی معاشرے میں کھانا بنانے کا ہنر خواتین کے لیے مخصوص رہا ہے۔ (فوٹو ٹوئٹر)
میں اپنے ساتھی نوجوانوں سے کہوں گا کہ وہ اس میدان میں آئیں اور اس سے انہیں زبردست آمدنی ہوگی۔
سعودی کابینہ نے گزشتہ ہفتے گیارہ ادارے قائم کیے ہیں۔ ان میں سے ایک کھانا بنانے کے ہنر سے متعلق ہے۔
سعودی وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ نے 12فروری 2020ء کو کھانا بنانے کے آرٹ والے ادارے کی سربراہ میادة بدر کو متعین کیا ہے۔
وزارت ثقافت چاہتی ہے کہ مملکت میں کھانا بنانے کا شعبہ ترقی کرے۔ جدید خطوط پر استوار ہو اور مرد و خواتین اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
سعودی عرب کی خبروں کے لیے واٹس ایپ گروپ جوائن کریں