ترجمان محکمہ صحت سندھ کے مطابق اب تک 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں (فوٹو: آن لائن)
کراچی کے علاقے کیماڑی میں بظاہر گیس کے اخراج سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 14 ہو گئی ہے۔
خبر رساں اداے اے ایف پی کے مطابق تفتیشی اہلکار ابھی تک یہ پتا لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ گیس کا اخراج کہاں سے ہو رہا ہے۔
یونیورسٹی آف کراچی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز نے کمشنر کراچی کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’متاثرہ افراد کے خون اور یورین کے نمونے ہمیں گذشتہ رات بھجوا دیے گئے تھے۔‘
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ہم نے بندرگاہ کے علاقے سے سویابین کی گرد کے نمونے بھی حاصل کر لیے ہیں۔ ہم زہر آلود ہوا کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس مشکل مسئلے کا کیمیائی تجزیہ بھی کر رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ سویابین کی گرد بہت زیادہ مقدار میں ہوا میں جانے سے یہ مسئلہ پیدا ہوا۔‘
انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز نے کمشنر کراچی کو تجاویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’سویابین کی گرد ہی ممکنہ طور پر اس ہلاکتوں کی بنیادی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ متاثرہ افراد کو سانس لینے کی دشواری اور اینٹی الرجی کی دوا دی جائے۔‘
سینٹر نے تجویز کیا ہے کہ ’سویابین کے کنٹینرز کو خالی کرتے وقت بہت احتیاط برتی جائے۔‘
رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’سویابین سے اس طرح کی مہلک بیماری بارسلونا (سپین) سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھی رپورٹ ہوئی ہے جس سے اموات بھی ہوئی ہیں۔‘
سرکاری حکام کے مطابق گذشتہ اتوار کو کراچی کی بندرگارہ کے ساتھ واقع علاقے کیماڑی کے رہائشی بیمار ہونا شروع ہوگئے تھے۔
مقامی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’ان کے ہسپتال میں 250 لوگوں کو آنکھوں میں جلن اور سانس لینے میں تکلیف کی شکایت پر داخل کیا گیا تھا۔‘
سندھ کے محکمہ صحت کے ترجمان ظفر مہدی نے تصدیق کی کہ ’ اب تک مختلف ہسپتالوں میں 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔‘
شہر میں قائم سرکاری جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سینٹر میں 35 افراد کو علاج کے لیے لایا گیا ہے۔ ہسپتال کے شعبہ حادثات کی سربراہ سیمی جمالی نے بتایا کہ ’ بیشتر مریض دم گھٹنے اور سانس لینے میں رکاوٹ کی تکلیف کا شکار ہیں۔‘
شروع میں حکام نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ ’ گیس کا اخراج قریبی بندر گارہ سے ہوا ہوگا لیکن کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) نے اس کی تردید کی ہے۔‘
کے پی ٹی کے ایک ترجمان کے مطابق ’ تمام ہلاکتیں بندرگاہ کی حدود سے باہر ہوئیں اور پورٹ میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔‘
صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کے مطابق حکام نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی بحری افواج کے کیمیل اینڈ بائیولوجیکل ڈیپارٹمنٹ سے مدد مانگی ہے۔