Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا: بلوچستان میں پیشگی اقدامات کے لیے مدد طلب

ایران میں کورونا وائرس سے اب تک 12 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان حکومت نے ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد وفاقی حکومت اور عالمی اداروں سے رابطہ کیا ہے اور اس مہلک مرض کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات میں مدد مانگی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایران سے آنے والے زائرین سمیت 270 افراد کو تفتان میں دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ مرکز منتقل کر دیا گیا ہے۔ ایران کے ساتھ سرحد پر دوسرے روز بھی ہر قسم کی آمدووفت معطل رکھی گئی ہے جس کے نیتجے میں سرحد پر سینکڑوں ایرانی ڈرائیور اور پاکستانی باشندے پھنس گئے ہیں۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان کے مطابق ایران کے بعد افغان سرحد پر بھی حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں صورتحال خراب ہوئی تو سرحد پر آمدورفت روک دی جائے گی۔
ایران میں کورونا وائرس سے اب تک 12 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 43 افراد میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی ہے۔ ایران سے ملحقہ افغانستان کے شہر ہرات میں بھی تین افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔
ایران کے ساتھ  پاکستان کی 900 کلومیٹر جبکہ افغانستان کے ساتھ تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ دو ہمسایہ ممالک میں کیسز سامنے آنے کے بعد پاکستان میں اس وائرس کی منتقلی کو روکنے کے لیے پیشگی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بلوچستان کی افغانستان اور ایران دونوں کے ساتھ سرحدیں لگتی ہیں اس لیے ہمارے ہاں وائرس کی منتقلی کے خطرات موجود ہیں۔ ایران کے ساتھ سرحد پر آمدووفت کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ایران میں وائرس پھیل رہا ہے اس لیے ہماری تمام تر توجہ ایران کے ساتھ سرحد پر ہے۔‘
ترجمان کے مطابق ’افغانستان میں اس وقت صورتحال زیادہ خراب نہیں مگر ہم افغان سرحد پر بھی حفاظتی اقدامات کر رہے ہیں۔ کوئٹہ سے ایک میڈیکل ٹیم افغان سرحد پر بجھوا دی گئی ہے اگر افغانستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو ہم وہی اقدامات اس سرحد پر بھی اٹھائیں گے جو ہم نے ایران سے ملحقہ سرحد پر اٹھائے ہیں۔‘

شاکر بلوچ کے مطابق تفتان سمیت ایران سے ملحقہ پانچ سرحدی راستوں کو آمدروفت کے لیے بند کرکے طبی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔

کیا افغانستان کے ساتھ سرحد بند کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں لیاقت شاہوانی نے بتایا کہ سرحد کو بند کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔ اس وقت کوئی ہنگامی صورتحال درپیش نہیں مگر ضرورت ہوئی تو افغان سرحد پر اپنے لوگوں کی آمدورفت کو روکیں گے۔
خیال رہے کہ پاک ایران سرحد کی نسبت پاک افغان سرحد پر آمدورفت بہت زیادہ ہے۔ صرف پاک افغان چمن سرحد پر ہر روز کم از کم 10 ہزار سے زائد لوگ پاکستان اور افغانستان آتے جاتے ہیں۔

وفاقی حکومت اور عالمی اداروں سے مدد طلب

محکمہ صحت بلوچستان  کے ڈائریکٹر جنرل شاکر بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’وفاقی حکومت کے ساتھ اسلام آباد میں ہمارا اجلاس ہوا ہے جس میں صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ایران میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی کے لیے وفاقی حکومت پالیسی بنا رہی ہے۔‘
شاکر بلوچ نے بتایا کہ تفتان سمیت ایران سے ملحقہ مجموعی طور پر پانچ سرحدی راستوں کو آمدورفت کے لیے بند کر کے طبی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔ تفتان میں سات ڈاکٹروں سمیت 13 افراد پر مشتمل میڈیکل ٹیم تعینات ہے۔ 17 رکنی ایک اور میڈیکل ٹیم بھی بھیجی جا رہی ہے۔
اسلام آباد سے قومی ادارہ صحت کے ڈاکٹروں کی ٹیم کوئٹہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے تفتان پہنچ گئی ہے جو طبی عملے کو تربیت فراہم کرے گی۔

پاک ایران سرحد کی نسبت پاک افغان سرحد پر آمدورفت بہت زیادہ ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

ڈی جی ہیلتھ بلوچستان کے مطابق ’ہمسایہ ممالک سے پاکستان وائرس منتقلی کا خطرہ ہے اس لیے ہم نے وفاقی حکومت سے طبی آلات اور ماہرین مانگے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت، بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف سمیت دیگر عالمی ڈونرز سے بھی ہم نے مدد مانگی ہے۔ ہمیں مزید تھرمل گنز، ماسک، دستانے، کوروانا وائرس ٹیسٹ کرنے کے لیے لیبارٹری کٹس اور دیگر آلات کی ضرورت ہے۔‘

پاک ایران سرحد کی صورتحال

ایرانی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے شہر تفتان میں انتظامیہ نے ایران سے آنے والے زائرین سمیت 270 افراد کو دو ہفتوں کے لیے طبی نگرانی کے لیے بنائی گئی عمارت ’پاکستان ہاؤس‘ منتقل کر دیا۔ ان میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک سو کے قریب وہ زائرین بھی شامل ہیں جو ایران جانا چاہتے تھے مگر سرحد کی بندش کی وجہ سے نہ جاسکے۔
تفتان میں موجود قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عمران کے مطابق ان افراد کو پہلے کوئٹہ لے جانے کا فیصلہ کیا گیا مگر تفتان میں انہیں جہاں ٹھرایا گیا تھا وہاں ایران سے آنے والے افراد کے ساتھ میل جول کے باعث انہیں بھی قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان تمام افراد کا روزانہ کی بنیاد پر طبی معائنہ کیا جارہا ہے اور انہیں مفت خوراک بھی فراہم کی جارہی ہے۔

کورونا وائرس اب چین کے بعد کئی ممالک میں پھیل چکا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر عمران کے مطابق پہلے تافتان میں سرحد کے قریب 100 بستروں پر مشتمل خیمہ ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر اب پاکستان ہاؤس کو ہی قرنطینہ مرکز کا درجہ دے دیا گیا ہے وہاں دو سے تین ہزار افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ کلی سٹیشن میں واقع بیسک ہیلتھ یونٹ کو آئسولیشن وارڈ بنا دیا گیا ہے۔ اگر کوئی مشتبہ مریض سامنے آیا تو انہیں آئسولیشن وارڈ میں رکھا جائے گا۔
تفتان انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ اتوار کو 25 کے قریب ایسے مقامی پاکستانی تاجر اور باشندے سرحدی دروازے پر پھنس گئے تھے جن کے پاسپورٹ پر ایرانی حکام نے ملک سے خارج ہونے کی مہر (ایگزٹ سٹیمپ) لگا دی تھی مگر پاکستانی حکام ملک میں آنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
ان کے مطابق ایرانی حکام بھی ایگزٹ سٹیمپ لگنے کی وجہ سے انہیں ایران واپس جانے نہیں دے رہے تھے۔ تقریباً 10 گھنٹے بعد انہیں رات گئے پاکستانی حدود میں داخل ہونے دیا گیا۔ 

تفتان کے  میڈیکل سٹورز میں ماسک اور دستانے ختم ہو گئے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

اہلکار نے انکشاف کیا کہ ان 25 افراد کو دو ہفتے کے لیے قرنطینہ میں رکھنے کی بجائے گھروں کو جانے کی اجازت دی گئی ان کا صرف پاکستان ہاؤس میں طبی معائنہ کیا گیا۔
سرحد بند ہونے کی وجہ سے تفتان میں کم از کم 400 سے 500 ایرانی ڈرائیور بھی پھنسے ہوئے ہیں جو ایران سے خوردنی اشیاء، ایل پی جی گیس اور دیگر تجارتی سامان لےکر پاکستان آئے تھے اور واپسی پر پاکستان سے چاول، کینو، کیلا، بیر لے کر ایران جا رہے تھے۔
کنٹینرز اور ٹرکوں میں یہ پھل ایران لے جانے والے ایک پاکستانی تاجر عبداللہ نے بتایا کہ ’سرحد کی بندش کی وجہ سے ہمارے پھل خراب ہو رہے ہیں۔‘
سرحد کی دوسری جانب میر جاواہ کے مقام پر بھی درجنوں ایسے پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جو واپس وطن آنا چاہتے ہیں۔
ایرانی حکام کے بقول انہیں پاکستانیوں کے واپس جانے پر کوئی اعتراض نہیں تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی باشندوں کو ایرانی حدود میں دو ہفتوں کے لیے طبی نگرانی میں رکھا جائے تاکہ اگر ان میں وائرس موجود ہو تو اس کی علامات ظاہر ہوسکیں۔

 

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے اتوار کو بتایا تھا کہ ایران میں کم از کم پانچ ہزار پاکستانی زائرین، تاجر اور عام شہری موجود ہیں جنہیں وطن واپسی سے پہلے 14 دن تک طبی نگرانی کے لیے ایران میں ہی رکھنے کی درخواست کی گئی ہے۔

سرحدی علاقوں میں حفاظتی سامان ناپید، تیل کی قیمتوں میں اضافہ

دوسری جانب ایران سے ملحقہ بلوچستان کے اضلاع چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر میں سرحدی علاقوں کے مکینوں میں ایران میں وائرس پھیلنے کی خبروں کے بعد خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پنجگور اور کئی علاقوں میں وائرس پھیلنے کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔
بلوچستان کے وزیر خزانہ ظہور بلیدی اور صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے ان کی سختی سے تردید کی ہے۔ لیاقت شاہوانی کے مطابق اب تک بلوچستان محفوظ ہے اور کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
تفتان کے مقامی صحافی آصف بلوچ کے مطابق تفتان میں لوگ پیشگی حفاظتی انتظامات کر رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے ماسک اور دستانے خریدنے کے لیے شہر کے میڈیکل سٹورز کا رخ کیا مگر شہر بھر میں ماسک اور دستانے ختم ہو گئے ہیں۔ میڈیکل سٹور مالکان نے کوئٹہ سے بڑی تعداد میں ماسک اور دستانے منگوا لیے ہیں۔
تفتان میں موجود پی ڈی ایم اے کی ٹیم کی پاس 10 ہزار ماسک ہیں۔ شہریوں نے ان سے ماسک طلب کیے مگر پی ڈی ایم اے اہلکاروں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ یہ ماسک صرف ایران سے واپس آنے والوں کو ہی فراہم کیے جائیں گے۔

ایران میں کورونا سے 12 ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پاک ایران سرحد پر آمدورفت اور تجارتی سرگرمیوں پر پابندی لگنے کے بعد پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اشیاء خورد ونوش کی قلت کا بھی خدشہ  پیدا ہوگیا ہے۔ سرحدی علاقوں میں کھانے پینے، روزمرہ استعمال کی بیشتر اشیاء سے لےکر ایندھن تک کے لیے ایران پر انحصار کیا جاتا ہے۔
چاغی کے علاقے دالبندین کے رہائشی محمد بخش نے بتایا کہ سرحدی علاقوں میں ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 20 روپے فی لیٹر اضافہ ہوگیا ہے۔
ایل پی جی گیس کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ اسی طرح تفتان کے قریب زیرو پوائنٹ پر تجارت بند ہونے سے سینکڑوں مزدور بھی بے روزگار ہوگئے ہیں۔
محمد بخش کا کہنا ہے کہ چین کی طرح اگر یہ صورتحال ہفتوں اور مہینوں تک برقرار ہی تو لوگوں کے لیے کھانے پینے کی اشیاء کا حصول بھی مشکل ہو جائے گا۔

شیئر: