بلوچستان حکومت نے ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد وفاقی حکومت اور عالمی اداروں سے رابطہ کیا ہے اور اس مہلک مرض کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات میں مدد مانگی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایران سے آنے والے زائرین سمیت 270 افراد کو تفتان میں دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ مرکز منتقل کر دیا گیا ہے۔ ایران کے ساتھ سرحد پر دوسرے روز بھی ہر قسم کی آمدووفت معطل رکھی گئی ہے جس کے نیتجے میں سرحد پر سینکڑوں ایرانی ڈرائیور اور پاکستانی باشندے پھنس گئے ہیں۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان کے مطابق ایران کے بعد افغان سرحد پر بھی حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں صورتحال خراب ہوئی تو سرحد پر آمدورفت روک دی جائے گی۔
مزید پڑھیں
-
حکومت چین سے طلبہ کو لانے کی تاریخ دے، والدینNode ID: 460011
-
’پاکستانیوں کو واپس نہ لانا اچھا فیصلہ ہے‘Node ID: 460501
-
پاکستانیوں کے ایران جانے پر پابندیNode ID: 460731
ایران میں کورونا وائرس سے اب تک 12 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 43 افراد میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی ہے۔ ایران سے ملحقہ افغانستان کے شہر ہرات میں بھی تین افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔
ایران کے ساتھ پاکستان کی 900 کلومیٹر جبکہ افغانستان کے ساتھ تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ دو ہمسایہ ممالک میں کیسز سامنے آنے کے بعد پاکستان میں اس وائرس کی منتقلی کو روکنے کے لیے پیشگی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بلوچستان کی افغانستان اور ایران دونوں کے ساتھ سرحدیں لگتی ہیں اس لیے ہمارے ہاں وائرس کی منتقلی کے خطرات موجود ہیں۔ ایران کے ساتھ سرحد پر آمدووفت کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ایران میں وائرس پھیل رہا ہے اس لیے ہماری تمام تر توجہ ایران کے ساتھ سرحد پر ہے۔‘
ترجمان کے مطابق ’افغانستان میں اس وقت صورتحال زیادہ خراب نہیں مگر ہم افغان سرحد پر بھی حفاظتی اقدامات کر رہے ہیں۔ کوئٹہ سے ایک میڈیکل ٹیم افغان سرحد پر بجھوا دی گئی ہے اگر افغانستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو ہم وہی اقدامات اس سرحد پر بھی اٹھائیں گے جو ہم نے ایران سے ملحقہ سرحد پر اٹھائے ہیں۔‘
کیا افغانستان کے ساتھ سرحد بند کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں لیاقت شاہوانی نے بتایا کہ سرحد کو بند کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔ اس وقت کوئی ہنگامی صورتحال درپیش نہیں مگر ضرورت ہوئی تو افغان سرحد پر اپنے لوگوں کی آمدورفت کو روکیں گے۔
خیال رہے کہ پاک ایران سرحد کی نسبت پاک افغان سرحد پر آمدورفت بہت زیادہ ہے۔ صرف پاک افغان چمن سرحد پر ہر روز کم از کم 10 ہزار سے زائد لوگ پاکستان اور افغانستان آتے جاتے ہیں۔
وفاقی حکومت اور عالمی اداروں سے مدد طلب
محکمہ صحت بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل شاکر بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’وفاقی حکومت کے ساتھ اسلام آباد میں ہمارا اجلاس ہوا ہے جس میں صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ایران میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی کے لیے وفاقی حکومت پالیسی بنا رہی ہے۔‘
شاکر بلوچ نے بتایا کہ تفتان سمیت ایران سے ملحقہ مجموعی طور پر پانچ سرحدی راستوں کو آمدورفت کے لیے بند کر کے طبی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔ تفتان میں سات ڈاکٹروں سمیت 13 افراد پر مشتمل میڈیکل ٹیم تعینات ہے۔ 17 رکنی ایک اور میڈیکل ٹیم بھی بھیجی جا رہی ہے۔
اسلام آباد سے قومی ادارہ صحت کے ڈاکٹروں کی ٹیم کوئٹہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے تفتان پہنچ گئی ہے جو طبی عملے کو تربیت فراہم کرے گی۔
ڈی جی ہیلتھ بلوچستان کے مطابق ’ہمسایہ ممالک سے پاکستان وائرس منتقلی کا خطرہ ہے اس لیے ہم نے وفاقی حکومت سے طبی آلات اور ماہرین مانگے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت، بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف سمیت دیگر عالمی ڈونرز سے بھی ہم نے مدد مانگی ہے۔ ہمیں مزید تھرمل گنز، ماسک، دستانے، کوروانا وائرس ٹیسٹ کرنے کے لیے لیبارٹری کٹس اور دیگر آلات کی ضرورت ہے۔‘
پاک ایران سرحد کی صورتحال
ایرانی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے شہر تفتان میں انتظامیہ نے ایران سے آنے والے زائرین سمیت 270 افراد کو دو ہفتوں کے لیے طبی نگرانی کے لیے بنائی گئی عمارت ’پاکستان ہاؤس‘ منتقل کر دیا۔ ان میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک سو کے قریب وہ زائرین بھی شامل ہیں جو ایران جانا چاہتے تھے مگر سرحد کی بندش کی وجہ سے نہ جاسکے۔
تفتان میں موجود قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عمران کے مطابق ان افراد کو پہلے کوئٹہ لے جانے کا فیصلہ کیا گیا مگر تفتان میں انہیں جہاں ٹھرایا گیا تھا وہاں ایران سے آنے والے افراد کے ساتھ میل جول کے باعث انہیں بھی قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان تمام افراد کا روزانہ کی بنیاد پر طبی معائنہ کیا جارہا ہے اور انہیں مفت خوراک بھی فراہم کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر عمران کے مطابق پہلے تافتان میں سرحد کے قریب 100 بستروں پر مشتمل خیمہ ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر اب پاکستان ہاؤس کو ہی قرنطینہ مرکز کا درجہ دے دیا گیا ہے وہاں دو سے تین ہزار افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ کلی سٹیشن میں واقع بیسک ہیلتھ یونٹ کو آئسولیشن وارڈ بنا دیا گیا ہے۔ اگر کوئی مشتبہ مریض سامنے آیا تو انہیں آئسولیشن وارڈ میں رکھا جائے گا۔
تفتان انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ اتوار کو 25 کے قریب ایسے مقامی پاکستانی تاجر اور باشندے سرحدی دروازے پر پھنس گئے تھے جن کے پاسپورٹ پر ایرانی حکام نے ملک سے خارج ہونے کی مہر (ایگزٹ سٹیمپ) لگا دی تھی مگر پاکستانی حکام ملک میں آنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
ان کے مطابق ایرانی حکام بھی ایگزٹ سٹیمپ لگنے کی وجہ سے انہیں ایران واپس جانے نہیں دے رہے تھے۔ تقریباً 10 گھنٹے بعد انہیں رات گئے پاکستانی حدود میں داخل ہونے دیا گیا۔
اہلکار نے انکشاف کیا کہ ان 25 افراد کو دو ہفتے کے لیے قرنطینہ میں رکھنے کی بجائے گھروں کو جانے کی اجازت دی گئی ان کا صرف پاکستان ہاؤس میں طبی معائنہ کیا گیا۔
سرحد بند ہونے کی وجہ سے تفتان میں کم از کم 400 سے 500 ایرانی ڈرائیور بھی پھنسے ہوئے ہیں جو ایران سے خوردنی اشیاء، ایل پی جی گیس اور دیگر تجارتی سامان لےکر پاکستان آئے تھے اور واپسی پر پاکستان سے چاول، کینو، کیلا، بیر لے کر ایران جا رہے تھے۔
کنٹینرز اور ٹرکوں میں یہ پھل ایران لے جانے والے ایک پاکستانی تاجر عبداللہ نے بتایا کہ ’سرحد کی بندش کی وجہ سے ہمارے پھل خراب ہو رہے ہیں۔‘
سرحد کی دوسری جانب میر جاواہ کے مقام پر بھی درجنوں ایسے پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جو واپس وطن آنا چاہتے ہیں۔
ایرانی حکام کے بقول انہیں پاکستانیوں کے واپس جانے پر کوئی اعتراض نہیں تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی باشندوں کو ایرانی حدود میں دو ہفتوں کے لیے طبی نگرانی میں رکھا جائے تاکہ اگر ان میں وائرس موجود ہو تو اس کی علامات ظاہر ہوسکیں۔
مزید پڑھیں
-
کورونا وائرس: ایشیا کی فضائی کمپنیوں کو 27 ارب ڈالر کا نقصانNode ID: 460366
-
’کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کا وقت ختم ہو رہا ہے‘Node ID: 460651
-
ایران میں کورونا سے مزید تین ہلاکتیں، کوریا میں ہائی الرٹNode ID: 460856