Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امان اللہ: ’ہالی وڈ میں ان کا مجسمہ بنتا‘

مخصوص پنجابی لہجے کی اردو امان اللہ کے جملوں کو مزید خاص بنا دیتی (فوٹو ایس بی ایس)
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب  میں مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ سٹیج ڈرامہ ضرور دیکھتا تھا، دو ڈرامے لاہور کے الحمرا آرٹ سینٹر میں ہوا کرتے تھے اورایک باغ جناح کے اوپن ائیرتھیٹر میں، سنیما گھروں کو ابھی تھیٹر میں تبدیل نہیں کیا گیا تھا۔
ایسا ہی ایک ڈرامہ دیکھنے میں باغ جناح گیا، مزاحیہ اداکاروں کی پوری کہکشاں اس میں موجود تھی اور وہ سب مل کر امان اللہ پر جگتیں کر رہے تھے، امان اللہ خان کسی جگت کا جواب دینے کی کوشش کرتے تو کوئی نہ کوئی انہیں ٹوک دیتا، کچھ دیر تک تو امان اللہ اُن کی جگتیں سنتے رہے پھر یکدم اپنے کندھے سے رومال اتار کر زمین پر بچھاتے ہوئے بولے ’تسی سارے اج اپنا شوق پورا کر لوو، میں سب نوں واری واری جواب داں گا، بھانویں اج رات دے دو وج جاون، اللہ وارث اے۔‘ (تم سارے آج اپنا شوق پورا کر لو، میں سب کو باری باری جواب دوں گا چاہے آج رات کے دو ہی کیوں نہ بج جائیں، اللہ وارث ہے)۔
امان اللہ کے اِس جواب پر لوگوں نے تالیاں بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیا اور پھر اُس رات وہ ڈرامہ واقعی دو بجے ختم ہوا۔ امان اللہ نے اکیلے سب اداکاروں کی جگتوں کا شافی جواب دیا اور خوب داد سمیٹی۔
لاہور کے پنجابی تھیٹر کا اگر کوئی ایک سپر سٹار تھا تو بلاشبہ وہ امان اللہ خان ہی تھا، انہوں نے غالباً 70 کی دہائی میں لاہور میں کام شروع کیا۔ اُس وقت الحمرا میں ایک ہی تھیٹر ہوا کرتا تھا جس میں 100 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی تھی۔ یہاں کمال احمد رضوی یا امتیاز علی تاج وغیرہ  کے اردو ڈرامے ہوتے تھے۔ پڑھی لکھی اشرافیہ خوشبو لگا کر آتی اور اِن ڈراموں سے ارسٹوکریٹک انداز میں محظوظ ہوتی۔
دوسری طرف عوام کا تھیٹر تھا، جہاں شامیانے لگا کر سٹیج قائم کیا گیا تھا۔ وہاں امان اللہ اور البیلا وغیرہ مزاحیہ پنجابی ڈرامے کرتے تھے۔
اُس وقت پہلی مرتبہ اندازہ ہوا کہ شامیانے والے ڈرامے عوام میں کتنے مقبول ہیں، اُس دور میں البیلا اور امان اللہ نے اپنی  ٹیم بنا کر کافی شہرت حاصل کی۔ یہ دونوں اکٹھے آتے تھے اور ڈرامے میں ایک  دوسرے پر خوب جگتیں لگاتے۔ پھر الحمرا کی نئی عمارت بنی۔ وہاں نئی انتظامیہ آئی جس نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ اب سے یہاں کوئی عامیانہ پن برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فضول قسم کی جگتیں نہیں ہوں گی، بس اعلیٰ میعار اور شستہ مزاح کے ڈرامے ہوں گے، کوئی پنجابی نہیں بولے گا۔

امان اللہ تھیٹر پرفارمنس کے دوران فی البدیہہ مکالمے بولتے جو بہت پسند کیے جاتے (فوٹو: سوشل میڈیا)

البیلا اور امان اللہ کے لیے یہ حکم نامہ کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔ کچھ عرصے کے لیے انہوں نے اِس پر عمل کرکے اردو میں ڈرامہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ بہت ہی مضحکہ خیز چیز ثابت ہوئی اور بات نہ بنی۔ ظاہر ہے کہ پنجابی زبان کی جگت کو اگر اردو میں پیش کیا جائے گا تو اُس کا ’پنچ‘ ہی ختم ہو جائے گا۔
البیلا اور امان اللہ نے تحریک چلائی اور مطالبہ کیا کہ پنجابی بولنے پر پابندی ختم کی جائے۔ اِس پر انہیں انتظامیہ کی جانب سے کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے ہار نہیں مانی۔ بالآخر ان کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور پنجابی تھیٹر کی اجازت دے دی گئی۔
یہ اِن مزاحیہ اداکاروں کی بہت بڑی کامیابی تھی اور پنجابی تھیٹر کے لیے تبدیلی کا لمحہ، جس کا سہرا البیلا اور امان اللہ کے سر ہے۔ انتظامیہ نے البتہ اپنا ڈنڈا مسلط کیے رکھا، گاہے بگاہے فضول اور مبہم احکامات جاری کیے جاتے، جن کا مقصد اپنے تئیں ’صاف ستھری تفریح‘ کو یقینی بنانا تھا مگر خود الحمرا میں بیٹھے ہوئے افسران کو بھی نہیں پتا تھا کہ اِس سے کیا مراد ہے۔ اِن حکم ناموں سے اور تو کچھ نہ ہوتا بس یہ غریب کامیڈین سہمے سہمے رہتے۔
یہ 70 کی دہائی کی باتیں ہیں۔ اس کے بعد جب جنرل ضیا الحق کا مارشل لا لگا تو پابندیاں مزید سخت ہوگئیں۔ تحریری ہدایت نامے جاری کیے گئے کہ ڈراموں میں صرف شادی شدہ کرداروں کو ہی بے تکلف انداز میں دکھایا جاسکتا ہے۔ کسی ایکٹر کو لڑکی کا ہاتھ پکڑنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ خلاف ورزی پر کوڑوں کی سزا تھی۔

امان اللہ نے پاکستان اور بیرون ملک اپنے فن کا لوہا منواہا (فوٹو: سوشل میڈیا)

ایسے ہی ایک ڈرامے میں اداکار جمیل فخری اپنی ساتھی اداکارہ کا ہاتھ پکڑنا چاہتا ہے مگر پابندی کی وجہ سے پکڑ نہیں سکتا، سو وہ لڑکی کے قریب جاتا ہے اور اسے ہاتھ لگائے بغیر کہتا ہے ’اج میرا کوڑے کھان نوں جی کردا اے۔‘ (دل کر رہا ہے کہ آج میں کوڑے کھاؤں)۔
امان اللہ نے کئی دہائیوں تک پاکستانی سٹیج ڈراموں پر حکمرانی کی۔ ایسا بے پناہ ٹیلنٹ شاید ہی کسی اور اداکار میں ہو۔ مزاح تخلیق کرنا دنیا کے مشکل کاموں میں سے ایک ہے او ر امان اللہ نے یہ کام مسلسل کئی سال تک کیا اور ایسی نئی سے نئی بات کی کہ اِن کی جگتوں کا انسائیکلو پیڈیا مرتب کیا جا سکتا ہے۔
سینکڑوں ڈراموں کی ایک طویل فہرست امان اللہ کے کریڈٹ پر ہے جس میں انہوں نے کسی لکھاری کی مدد کے بغیر محض اپنے ٹیلنٹ کے بل پر کام کیا اور حاضرین میں قہقہے بکھیرے۔
دنیا بھر میں کامیڈی شو ہوتے ہیں جن کے پیچھے درجنوں دماغ کام کرتے ہیں، ایک ایک جگت تخلیق کرنے کے لیے لکھاری سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور پھر کہیں جا کر ایک قہقہہ نکلتا ہے جب کہ امان اللہ ایک ایسا اداکار تھا جو فی البدیہہ جگت تخلیق کرتا تھا، یہ ایک ایسا ٹیلنٹ ہے جو دنیا میں شاید مغربی پنجاب کے اِن اداکاروں کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ جن لوگوں کو یہ بات مبالغہ آمیز لگے وہ امریکہ کا مشہور زمانہ Johnny Carson Show دیکھیں جو پوری دنیا میں مشہور تھا، بظاہر یہ ون مین شو تھا مگر اصل میں اِس کے 22 لکھاری ہوا کرتے تھے۔

امان اللہ نے پاکستانی نیوز چینلز پر طنزومزاح کے پروگراموں میں بھی کام کیا (فوٹو: سوشل میڈیا)

آج بھی امریکہ اور برطانیہ میں جو کامیڈی شو ہوتے ہیں وہ بہت محنت سے تخلیق کیے جاتے ہیں اور اُن کے پیچھے پوری ٹیم ہوتی ہے جو ایک ایک قہقہے کے لیے محنت کرتی ہے۔ جب کہ اپنے ہاں امان اللہ اور اِس جیسے دوسرے خداداد صلاحیتوں کے حامل اداکاروں کا حال یہ تھا کہ انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ اِن میں کتنا بڑا ٹیلنٹ ہے۔ یہ ایک دوسرے کو جگت لگاتے۔ اس کا جواب آتا اور پھر جواب میں فی البدیہہ جگت لگاتے، دنیا میں اسے ایک فن مانا جاتا ہے جسے ہمارے یہ کامیڈین ایسے کرتے جیسے ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہو اور امان اللہ اِس فن کا شہنشاہ تھا۔
اس کے پیچھے کوئی لکھاری نہیں تھا۔ امان اللہ خود ہی جگت تخلیق کرتا اور خود ہی پرفارم کرتا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امان اللہ کے ساتھی اداکار کبھی کبھی اسے ’شکست ‘ دینے کے لیے ایسی جگتیں بھی کرتے جن کے لیے وہ تیار نہ ہوتا مگر اِس کے باوجود وہ اُن کا ایسا جواب دیتا کہ حاضرین کے قہقہوں سے چھت اڑ جاتی۔

پاکستانی کامیڈین کے انتقال پر ان کا نام سوشل میڈیا ٹرینڈز کا حصہ بنا رہا (فوٹو منیبہ مزاری)

اُس زمانے میں اگر کوئی تین چار دن تک امان اللہ کا ڈرامہ دیکھنے جاتا تو اسے اندازہ ہوتا کہ ڈرامے میں جگتیں مسلسل تبدیل ہو رہی ہیں۔ اِس ٹیلنٹ کا دنیا میں کوئی جواب نہیں۔ اپنے ہمسایہ ملک انڈیا کو دیکھ لیں۔ ہمارے مقابلے میں اُن کی کامیڈی دو ٹکے کی نہیں۔ ان کا سب سے مشہور شو کپل شرما شو ہے۔ جب کبھی اِس شو میں کوئی جگت ہِٹ ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستانی تھیٹر سے چرائی ہوئی ہے۔
امان اللہ جب انڈیا گیا تو امیتابھ بچن سے لے کر ریکھا تک انڈین سپر سٹارز کے سامنے پرفارم کر کے انہیں مبہوت کر دیا۔ آج اگر کسی طرح امان اللہ کی پنجابی جگت کا ثقافتی ترجمہ کرکے امریکہ کے تھیٹر میں پیش کیا جائے تو امریکی اِس شخص کو کامیڈی کنگ کا خطاب دے کر ہالی وڈ میں اس کا مجسمہ بنا دیں۔ امان اللہ بلاشبہ اِس دور کا سب سے بڑا کامیڈین تھا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں/بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں