پاکستانی فلم ’زندگی تماشا‘ کا فیصلہ پارلیمان کرے گی‘
پاکستانی فلم ’زندگی تماشا‘ کا فیصلہ پارلیمان کرے گی‘
بدھ 11 مارچ 2020 17:10
زبیر علی خان، -اردو نیوز
سنسر بورڈ کے مطابق درمیانی راستہ نکالنے کے لیے نظریاتی کونسل سے رائے مانگی (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستانی کے مرکزی فلم سنسر بورڈ کا کہنا ہے کہ ’فلم ’زندگی تماشا‘ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تاہم دباؤ کے باعث فلم کی ریلیز پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگی گئی ہے۔‘
اسلام آباد میں سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بریفنگ دیتے ہوئے مرکزی فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین دانیال گیلانی نے بتایا کہ پاکستانی فلم ’زندگی تماشا‘ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی تاہم دباؤ کے باعث فلم پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگی گئی ہے۔
ان کے مطابق فلم کے پروڈیوسر سے درخواست کی گئی ہے کہ کچھ عرصہ تک فلم کو ریلیز نہ کیا جائے۔
چیئرمین کمیٹی مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ’اسلامی نظریاتی کونسل کو معاملہ بھیجنے کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے۔‘ انہوں نے مرکزی فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین کو ہدایت کی کہ فلم پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو دکھائی جائے۔
’اگر کمیٹی نے سمجھا کہ اس میں کوئی قابل اعتراض مواد نہیں تو اسی وقت نمائش کی اجازت دی جائے گی اور اگر اس میں قابل اعتراض مواد ہوا تو اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگی جائے گی۔‘
مرکزی فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین دانیال گیلانی نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ ’فلم کے حوالے سے پروڈیوسر نے گذشتہ سال 26 جولائی کو درخواست دی تھی جس پر سنسر بورڈ نے فلم دیکھنے کے بعد 30 جولائی 2019 کو سرٹیفیکیٹ جاری کیا۔ ’3 اکتوبر کو تحریک لبیک پاکستان نے سنسر بورڈ کو درخواست دی جس پر سنسر بورڈ نے فلم کو دوبارہ دیکھنے کا فیصلہ کیا جس میں متنازع مناظر جو ہم سمجھتے تھے ہٹائے گئے اور 14 اکتوبر کو فلم کو دوبارہ سرٹیفیکٹ جاری کر دیا گیا۔‘
مرکزی فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین نے بتایا کہ ’اس کے بعد تحریک لبیک معاملہ عدالت میں لے کر گئی اور 17 جنوری کو فلم روکنے کے لیے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا۔‘
دانیال گیلانی نے کہا کہ 22 جنوری کو بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کر رہی تھی اس لیے سندھ سنسر بورڈ نے 21 جنوری کو ہونے والا پرومو روک دیا اور پنجاب سنسر بورڈ نے فلم کو جاری سرٹیفیکیٹ کے حوالے سے نظر ثانی کا فیصلہ کیا۔
کمیٹی کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر نے مرکزی فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا ریاست اب مولویوں کے ہاتھوں یرغمال بنے گی اور مولوی بھی وہ جنہوں نے دو بار اسلام آباد پر حملہ کیا۔ چیف جسٹس اور آرمی چیف کے خلاف فتوے دیے؟‘
چیئرمین مرکزی سنسر بورڈ نے کہا کہ ’ہم نے اس معاملے کا درمیانی راستہ نکالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگی ہے۔ سنسر بورڈ کل اسلامی نظریاتی کونسل کی کمیٹی کو فلم دکھائی گی اور ان کی رائے کے بعد فلم کے بارے فیصلہ کیا جائے گا۔‘
کمیٹی کے چیئرمین نے اعتراض اٹھایا کہ آپ کے پاس یہ اختیار نہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگیں، ’کونسل سے رائے پارلیمان مانگ سکتی ہے سنسر بورڈ نہیں۔‘
کمیٹی کے ارکان نے چیئرمین مرکزی فلم سنسر بورڈ دانیال گیلانی سے متعدد بار پوچھا کہ اس فلم میں ایسا کیا ہے؟
کمیٹی کے رکن عثمان کاکڑ نے کہا کہ ’ بتایا جائے ’زندگی تماشا‘ میں کیا تماشا ہے؟ یہاں تو ساری زندگی ہی تماشا بنی ہوئی ہے۔‘
دانیال گیلانی نے کہا کہ ’تحریک لبیک پاکستان نے فلم کا ٹریلر دیکھا اور ان کو لگا کہ یہ فلم ان کے خلاف بنائی گئی ہے۔ ’ہم نے فلم سے کچھ سینز حذف کیے ہیں لیکن فلم پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔‘
کمیٹی کے اصرار پر چیئرمین مرکزی فلم سنسر بورڈ دانیال گیلانی نے ان کیمرا اجلاس کی درخواست کی جسے منظور کرتے ہوئے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے میڈیا نمائندگان سے اجلاس سے باہر جانے کی درخواست کی۔
اجلاس کے بعد چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سنسر بورڈ کو اسلامی نظریاتی کونسل کو فلم دکھانے سے روک دیا گیا ہے۔ ’سنسر بورڈ پہلے کمیٹی کو فلم دکھائے گا اور کمیٹی اس فلم کی نمائش کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ابھی تک جو اطلاعات ملی ہے ان کے مطابق فلم میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اپنے لوگوں کو چھڑوانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا لیکن ہم ایسے گروپوں کے دباؤ میں نہیں آئیں گے جو ریاست کو یرغمال بناتے ہیں۔ ریاست کے معاملات پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق ہی چلائے جائیں گے۔‘