Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'پاکستانیوں کو واپس آنے کی ضرورت کیا؟'

سرور خان کے مطابق ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا فیصلہ قومی سلامتی کمیٹی کا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ناقابل عمل قرار دینے کے باوجود وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ پاکستانیوں کو وطن واپسی پر ہر صورت اپنا کورونا ٹیسٹ ہمراہ لانا ہوگا ’اور ہو سکے تو ترقی یافتہ ملکوں سے آنے والا ہر پاکستانی کورونا ٹیسٹنگ کی دو چار کٹس بھی ساتھ لائے۔‘
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے وطن واپسی پر ہر صحتمند شخص کے لیے بھی کورونا ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کی حکومتی شرط کو مضحکہ خیز قرار دے کر اس پر تنقید کی ہے تاہم وفاقی وزیر ہوا بازی کا کہنا تھا کہ اس پالیسی پر نظرثانی نہیں ہو سکتی۔
اردو نیوز کے ساتھ اپنے دفتر میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ قومی سلامتی کمیٹی کا ہے جس کا مقصد پاکستان میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی جن ممالک میں مقیم ہیں وہاں صحت کی بہترین سہولیات میسر ہیں اس لیے ان کو واپسی کی کیا ضرورت ہے؟
ایک سوال پر کہ کئی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے خاندان پاکستان میں ہیں اور انہیں اس بحران میں اپنے خاندان کے پاس واپس آنا ہوتا ہے، وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’ایسی صورت میں ان پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ دو چار ٹیسٹنگ کٹس ہمارے لیے بھی لائیں کیونکہ پاکستان کو ان کی ضرورت ہے۔
انہوں نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکومت نے چین سے طالب علم واپس نہ بلانے کا مشکل اور سخت فیصلہ کیا جس پر تنقید ہوئی مگر وہ بعد میں ملک کے لیے اچھا ثابت ہوا۔
یہ بھی ایک ایسا ہی فیصلہ ہے جو ملک کے لیے ضروری تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے تو اپنے خطاب میں غیر ضروری ٹیسٹ کروانے سے منع کرتے ہوئے صرف ان لوگوں کو ٹیسٹ کروانے کا کہا جن میں کورونا کی علامات واضح ہوں، وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان سے باہر جانے والوں کے لیے ٹیسٹ کروانا لازم نہیں بلکہ ان کی صرف سکریننگ ہوگی۔

غلام سرور خان نے پاکستان آنے والوں کے لیے کورونا ٹیسٹ لازی قرار دینے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یاد رہے کہ وزارت ہوا بازی نے 21 مارچ سے پاکستان آنے والے تمام مسافروں کے لیے 24 گھنٹے قبل کورونا کا ٹیسٹ کروانے اور اسے ساتھ لانے کی شرط لازمی قرار دے دی ہے اور ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے  تمام غیر ملکی ایئر لائنز کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ بیرون ملک سے صرف ان مسافروں کو طیارے میں بیٹھنے دیں جن کے ٹیسٹ ہو چکے ہوں ۔
بیرون ملک پاکستانیوں کے مطابق حکومت ان سے اربوں ڈالر سالانہ زرمبادلہ کماتی ہے مگر اب ان کا ملک میں داخلہ تقریبا بند کیا جا رہا ہے۔
امریکی ریاست میری لینڈ میں مقیم پاکستانی آئی ٹی انجنیئر خرم شہزاد کے مطابق  گو کہ پاکستان نے یہ عمل اپنی حفاظت کے لیے کیا ہے مگر یہ شرط غیر مناسب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر پاکستانی جو ٹیکسی چلاتے ہیں یا گیس سٹیشن پر کام کرتے ہیں ان کے پاس ہیلتھ انشورنس نہیں ہوتی اور اس صورت میں لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے کے لیے انہیں کم از کم 1300 امریکی ڈالر ٹیسٹ کے لیے جمع کروانے ہوں گے۔
جن کی تنخواہ ہی دو ہزار ڈالر سے تین ہزار ڈالر ہو وہ لوگ ٹیسٹ کے لیے اتنے پیسے کہاں سے لائیں گے؟ اس کا مطلب ہے کہ انہیں اپنے ملک آںے سے روکا جا رہا ہے؟‘

بیرون ملک پاکستانیوں نے حکومت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ پہلے ہی ٹیکسی چلانے والے یا کھانے پینے کی دکانوں پر کام کرنے والے پاکستانی واشنگٹن اور نیویارک میں کورونا کی وجہ سے بے روزگار بیٹھے ہیں، ان کے لیے پیسوں کا انتظام کرنا ممکن نہیں ہے۔
ڈنمارک کے شہر اوڈنسے میں فوڈ ڈیلیوری کا کام کرنے والے پاکستانی عروش شاہ کا بھی کہنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ یورپ میں آپ صحت مند ہو کر کورونا کا ٹیسٹ کروا سکیں کیونکہ ٹیسٹ کروانے کے لیے ڈاکٹر کی طرف سے سفارش اور علامات کا ہونا ضروری ہے۔
اگر خدانخواستہ علامات ہوں تو پھر تو ویسے بھی سفر ممکن نہیں کیوںکہ علامات ظاہر ہونے کی صورت میں ڈنمارک کی حکومت کے نمائندے فوری طور پر آپ کو آئسولیٹ کر دیتے ہیں تاکہ مرض آگے نہ پھیلے۔

شیئر: