Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریضوں ہی نہیں عملے کے لیے بھی حفاظتی سامان ضروری

طبی عملے کو جو سامان درکار ہوتا ہے اسے پی پی ای کہتے ہیں (فوٹو: روئٹرز)
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جہاں عوام کو بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا جا رہا ہے وہیں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو دوران ڈیوٹی مخصوص لباس پہننے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
پاکستان میں ینگ ڈاکٹرز نے یہ مخصوص لباس دستیاب نہ ہونے کے باعث ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
یہ مخصوص لباس کتنا ضروری ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کی حکومتوں اور صنعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ طبی عملے کی ذاتی حفاظت کے ساز و سامان کی پیداوار میں 40 فیصد اضافہ کریں۔
عالمی ادارہ صحت کی ترجمان فیڈیلا شیب کے مطابق ’دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج معالجہ کرنے والے افراد کو ہر مہینے آٹھ کروڑ 90 لاکھ ماسک، تین کروڑ گاؤن،  ایک کروڑ 59 لاکھ مخصوص چشمے، سات کروڑ چھ لاکھ دستانے اور دو کروڑ 90 لاکھ لیٹر ہینڈ سینیٹائزر درکار ہوں گے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کے علاج میں مصروف ڈاکٹر فضل خان کے مطابق ’کسی بھی آفت یا وبا  سے متاثرہ  افراد اور ان کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کو ذاتی حفاظت کا جو سامان استعمال کرنا ہوتا اسے پی پی ای  یعنی (Personal Protection Equipment) کہتے ہیں۔
طبی عملے کے لیے جو سامان ہوتا ہے اس کا بنیادی مقصد وائرس سے بچاؤ  ہے تاکہ مرض ایک مریض سے ڈاکٹر اور پھر وہاں سے دیگر افراد میں پھیلنے سے روکا جا سکے۔ اس لیے یہ ایسے مٹیریل سے تیار کیا جاتا ہے جس سے ذرات یا جراثیم کا گزر نہیں ہوتا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق معالجہ کرنے والے عملے کو لاکھوں لیٹر سینیٹائزر درکار ہوگا (فائل فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے بتایا کہ’ ایک ہیلتھ ورکر کے استعمال کا جو ساز و سامان آتا ہے اس میں مخصوص گاؤن، سانس کے عمل کو متاثر کیے بغیر جراثیم سے حفاظت کرنے والا این 95 ماسک، سر، گردن اور کانوں کی حفاظت کے ہیڈ کور، مخصوص چشمہ یا فیس شیلڈ، دو جوڑے دستانے، جوتا کور اور جراثیم کش سینیٹائزر شامل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فضل خان کے مطابق ’یہ ساز و سامان کسی معاون کے بغیر پہننا مشکل ہوتا ہے اور کسی کی معاونت کے بغیر اتارنا تو کسی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ جو لباس ایک بار پہن لیا جائے اسے دوسری بار استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ عموماً وارڈ سے باہر آنے کے بعد یہ لباس ضائع کرنا ہوتا ہے لیکن قلت کے باعث اب پانچ سے چھ گھنٹے تک استعمال کر رہے ہیں۔ اتارنے کے فوراً بعد ڈبلیو ایچ او کے واضح کردہ طریقہ کار کے مطابق اسے ضائع کرنا ہوتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ترجمان فیڈیلا شیب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ خود اور اپنے مریضوں کو وائرس سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے ذاتی حفاظت کے مخصوص ساز و سامان پر انحصار کرتا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ذاتی حفاظت کے ساز و سامان کی قلت کی وجہ سے طبی عملے کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

کورونا کی وجہ سے این 95 ماسک کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے (فوٹو: اے بی سی نیوز)

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ’کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے سرجیکل ماسک کی قیمتوں میں چھ گنا، این 95 ماسک کی قیمت میں تین گنا اور گاؤن کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر فضل خان کے مطابق ’عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کے ڈاکٹرز اور طبی عملے کے لیے ذاتی حفاظت کا ساز و سامان بھیجا ہے لیکن اگر صورت حال میں بہتری نہ آئی تو یہ ساز و سامان بہت کم پڑ جائے گا۔

شیئر: