کورونا وائرس دنیا بھر کے 199 ممالک تک پھیل چکا ہے۔ 42 ممالک ایسے ہیں جن میں اب تک ایک ہزار سے زائد کنفرم مریض سامنے آئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی شرح موت چار فیصد سے زیادہ ہے جبکہ دنیا دنیا بھر میں سب سے زیادہ شرح اموات رکھنے والے 10 ممالک میں شرح چار سے 11 فیصد کے درمیان ہے۔
20 جنوری کو چین میں سامنے آنے والے پہلے کورونا کیس سے لے کر 30 مارچ تک سات لاکھ 35 ہزار سے زائد افراد اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتے اعداد و شمار کے مطابق تادم تحریر 34 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ایک لاکھ 52 ہزار افراد صحت یاب ہو چکے ہیں جن میں سے نصف یعنی 75 ہزار 700 چین میں صحت یاب ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کورونا کا شکار اقامہ ہولڈرز اور غیر قانونی تارکین کا علاج مفتNode ID: 468256
-
مسلمانوں کا ہندو ہمسائے کی ارتھی کو کندھا اور 'رام نام ستیا'Node ID: 468261
-
روایتی طریقے یا جدید ٹیکنالوجی، پنجاب کورونا سے کیسے نمٹ رہا ہے؟Node ID: 468281
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت کل مریضوں کا پانچ فیصد یعنی 27 ہزار افراد تشویش ناک حالت میں ہیں جبکہ پانچ لاکھ 12 ہزار سے زائد جو 95 فیصد ہیں ان میں کورونا کی علامات واضح ہیں تاہم ان کی جان کو خطرات لاحق نہیں ہیں۔ اب تک کورونا کے جو کیسز بند کیے گئے ہیں ان میں سے 82 فیصد صحتیاب جبکہ 18 فیصد ہلاک شدگان کے ہیں۔
بلند ترین شرح موت والے ممالک
اعداد و شمار کے مطابق اب تک اٹلی میں مریضوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہو چکی ہے جبکہ وہاں پر مرنے والے افراد کی تعداد 10 ہزار سات سے زائد ہے اور شرح موت 11 اعشاریہ تین فیصد ہے۔ اٹلی کے بعد انڈونیشیا ہے جہاں اگرچہ کنفرم کیسز کی تعداد تو ایک ہزار دو سو 85 ہے لیکن ایک سو 14 اموات کے باعث شرح موت کا تناسب آٹھ اعشاریہ 87 ہے۔ تیسرے نمبر پر سپین ہے جہاں مریضوں کی تعداد 80 ہزار سے زائد جبکہ اموات چھ ہزار آٹھ سو سے زائد ہے اور موت کی شرح آٹھ اعشاریہ 49 ہے۔ نیدرلینڈ میں 10 ہزار 900 مریضوں میں سے سات سو 71 اموات سے شرح سات اعشاریہ ایک بن رہی ہے۔
ایران میں شرح موت چھ اعشاریہ 89، فرانس میں چھ اعشاریہ 48، برطانیہ میں چھ اعشاریہ 29، فلپائن میں پانچ اعشاریہ ایک ہے۔ کورونا وائرس کا پہلا گھر چین رفتہ رفتہ اس فہرست میں نویں نمبر پہنچ گیا ہے جہاں 82 ہزار سے زائد مریضوں میں اموات کی تعداد تین ہزار 300 سے زائد ہوچکی ہے اور اب تک شرح موت چار اعشاریہ تین فیصد رہی ہے۔ دسویں نمبر بیلجیئم ہے جس میں شرح موت تقریباً چار فیصد ہے۔
کم ترین شرح اموات والے ممالک
جن ممالک میں کنفرم مریضوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد اور شرح موت ایک فیصد سے بھی کم رہی ان میں جنوبی افریقہ ایک ہزار دو سو 80 مریضوں میں سے صرف دو اموات کے ساتھ سب سے آخری نمبر پر ہے۔ شرح موت صفر اعشاریہ 16 ہے۔ آئس لینڈ میں ایک ہزار 20 مریض اور دو اموات ہوئیں۔ شرح صفر اعشاریہ دو فیصد ہے۔ چلی میں دو ہزار 139 مریضوں میں سے سات افراد ہلاک ہوئے اور شرح موت صفر اعشاریہ 33 فیصد ہے۔ اسرائیل میں مریضوں کی تعداد اگرچہ چار ہزار دو سو 47 ہے لیکن اموات 15 ہوئی ہیں۔ یہاں پر شرح موت صفر اعشاریہ تین فیصد ہے۔ آسٹریلیا میں شرح موت چار فیصد ہے جہاں چار ہزار ایک سو 97 مریضوں میں سے 17 افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔
اس کے علاوہ تھائی لینڈ میں شرح موت صفر اعشاریہ 45, روس اورچیچنیا میں صفر اعشاریہ پانچ، ناروے اور سعودی عرب میں صفر اعشاریہ چھ فیصد رہی ہے۔
صحت یابی کا تناسب
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس میں صحت یابی کا تناسب کم و بیش 96 فیصد ہے جبکہ اس حوالے سے ابتدائی تخمینہ 98 فیصد صحت یابی اور دو فیصد اموات لگایا گیا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے 10 ممالک ان میں سے صرف دو ایسے ہیں جہاں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد صحت یاب ہونے والوں سے زیادہ ہے۔
امریکہ میں چار ہزار 562، اٹلی میں 13 ہزار 30، چین میں سب سے زیادہ 75 ہزار 700، سپین میں 14 ہزار سات سو سے زائد مریض صحتیاب ہوچکے ہیں۔ فرانس میں سات ہزار 200، ایران میں 12 ہزار تین سو 91 جبکہ سویٹزرلینڈ میں ایک ہزار 600 سے زائد افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔ صرف برطانیہ اور نیدرلینڈ ایسے ممالک ہیں جہاں مرنے والوں کی تعداد صحت یاب ہونے والوں سے زیادہ ہے۔ برطانیہ میں ایک ہزار 228 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ صرف 150 افراد صحت یاب ہوئے ہیں جبکہ نیدرلینڈز میں تین سو افراد صحت یاب ہوئے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد سات سو 71 ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے اموات کی شرح کا ابتدائی تخمینہ دو فیصد تھا جو مارچ کے آغاز پر تین فیصد اور اب چار فیصد سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ فوری طور یہ کہنا کہ یہ تخمینہ اور شرح فیصد دونوں کس حد تک درست ہیں ممکن نہیں۔ عالمی ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق ابھی تک شرح موت صرف لیبارٹری میں ہونے والے ٹیسٹ کے بعد مرنے والے افراد کے تناسب سے سامنے آئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید تحقیق ہوگی تو صورت حال مزید واضح ہوگی۔
پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے ساتھ وابستہ ماہر ڈاکٹر سعید خان کا کہنا ہے کہ شرح اموات میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کسی ایک وجہ کا تعین کرنا بڑا مشکل ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'کورونا وائرس ہر ملک اور خطے میں جا کر اپنی ہیئت اور خاصیت بدل رہا ہے۔ چین میں وائرس اب یورپ میں تباہی مچانے والے وائرس سے مختلف ہے۔ اسی طرح پاکستان میں موجود وائرس کی شکل بھی چین کے کورونا وائرس سے مختلف ہے۔'
انہوں نے کہا دوسری بڑی وجہ مختلف ممالک کی جانب سے کورونا وائرس کو لے کر کی گئی تیاریاں اور ردعمل ہے۔ بہت سے ممالک نے اپنی حکمت عملی سے اموات پر قابو پایا۔ کچھ ممالک نے ہلکا لیا تو اب وہاں مسائل بڑھ چکے ہیں۔ 'اٹلی جیسے ملک کا صحت کا نظام اپنی تمام استعداد کار استعمال میں لاکر بھی صورت حال پر قابو نہیں پا سکا۔ جب صحت کا نظام بیٹھ جائے تو پھر کیسز بڑھ جاتے ہیں اور تشویش ناک مریض نظرانداز ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے لیے زیادہ طبی سہولیات اور زیادہ عملہ درکار ہوتا ہے۔'
پاکستان کی صورت حال کیا ہے؟
پاکستان میں اب تک کورونا سے 20 افراد ہلاک جبکہ 29 صحت یاب ہو چکے ہیں۔ شرح اموات کے حوالے سے پاکستان ایک اعشاریہ 11 فیصد کے ساتھ 28 ویں نمبر ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹیسٹوں کی تعداد میں کمی کے باعث حقیقی اعداد و شمار سامنے نہیں آ رہے۔ عالمی ادارہ صحت پاکستان سمیت تمام ممالک پر ٹیسٹ کرانے پر زور دے رہا ہے۔
قومی ادارہ صحت کے ڈاکٹر مدثر محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان میں لاک ڈاون صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کے ٹیسٹ کیے جائیں۔ ’اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدانخواستہ صورت حال یورپی ممالک سے مختلف نہیں ہوگی اور ایسی صورت میں پاکستان کی شرح اموات کے تناسب میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں