توسیع کا فیصلہ وائرس کی مقامی طور پر بڑھتی ہوئی منتقلی کے پیش نظر کیا گیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
بلوچستان حکومت نے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے صوبے میں جاری لاک ڈاؤن کو مزید دو ہفتوں تک برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
بلوچستان حکومت نے اس سے قبل 21 مارچ کو حفاظتی اقدامات کے تحت کوئٹہ اور صوبے بھر میں شہریوں کی کسی بھی قسم کی نقل و حرکت، پبلک ٹرانسپورٹ، مذہبی و سماجی سمیت ہر قسم کی تقریبات پر پابندی عائد کی تھی۔
ان پابندیوں کی مدت سات اپریل کو ختم ہو رہی تھی تاہم صوبائی حکومت نے 21 اپریل تک پابندیاں برقرار رکھنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے تین اضلاع میں اب تک کورونا کے 202 کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ ایک شخص کی موت ہوئی ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کی مقامی طور پر منتقلی بڑھ رہی ہے۔ 202 کیسز میں 61 کیسز مقامی طور پر منتقل ہوئے ہیں۔
متاثرین میں 18 ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس بھی شامل ہیں۔ 63 افراد اب تک صحتیاب ہو کر ہسپتال سے گھروں کو جاچکے ہیں۔
دوسری جانب انجمن تاجران بلوچستان نے حکومت سے لاک ڈاؤن جزوی طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انجمن تاجران کے ترجمان اللہ داد ترین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت صبح دس سے شام پانچ بجے تک کاروباری مراکز کھولنے کی اجازت دے۔
افغان باشندوں کی واپسی شروع
دریں اثنا حکومت پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد کھولنے کے بعد پاکستان میں ایک ماہ سے پھنسے ہزاروں افغان باشندوں کی وطن واپسی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
پاکستان نے کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کے خطرے کے پیش نظر ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ چمن کے مقام پر سرحد دو مارچ سے بند کر رکھی تھی۔ بعد میں قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کے تحت طورخم سرحد پر بھی آمدورفت بند کر دی گئی تھی۔ سرحد کی بندش کی وجہ سے دونوں جانب ہزاروں پاکستانی اور افغان باشندے پھنس گئے تھے۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے افغان حکومت کی درخواست پر افغان باشندوں کی وطن واپسی کے لیے سرحد چھ سے نو اپریل تک کھولنے کا اعلان کیا جس کے بعد ہزاروں افغان باشندے پاک افغان چمن سرحد پہنچے گئے۔
ایف سی حکام کے مطابق 'چمن سرحد کو صبح آٹھ بجے آمدروفت کے لیے کھولا گیا مگر اس سے پہلے ہی چار سے پانچ ہزار افغان شہری سرحد پر پہنچ چکے تھے جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ اس موقعے پر باب دوستی گیٹ پر ایف سی اور ایف آئی اے کی جانب سے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔
اہلیہ کے علاج کے لیے کوئٹہ آنے والے عبدالغنی نے وطن واپسی کی اجازت ملنے پر خوشی کا اظہار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ 'ہم ایک ماہ سے انتظار میں تھے کہ کب سرحد کھلے گی کیونکہ کوئٹہ اور چمن میں ہمیں رہائش اور خوراک کا بڑا مسئلہ درپیش تھا اور ہم جتنی رقم لائے تھے وہ خرچ ہوگئی۔ ہوٹل کے کرائے اور کھانے کے لیے بھی پیسے ختم ہوگئے تو ہم نے بڑی مشکل سے ادھار کا بندوبست کیا۔'
ایف آئی اے حکام کے مطابق 'معمول کے دنوں میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان صرف چمن سرحد کے راستے روزانہ 20 سے 30 ہزار افراد کی آمدورفت ہوتی ہے۔ یہ افراد تجارت، مزدوری اور رشتے داروں سے ملنے اور علاج کے لیے آتے جاتے ہیں۔'
حکام کے مطابق 'افغان باشندوں کو پاسپورٹ یا افغان شناختی کارڈ 'تذکرہ' دکھانے کے بعد سرحد عبور کرنے دیا جا رہا ہے تاہم افغان حکام کی جانب سے سکریننگ کی وجہ سے یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔'