کراچی کے وہ متاثرین ’جن کے وجود سے شہر والے ناآشنا ہیں‘
کراچی کے وہ متاثرین ’جن کے وجود سے شہر والے ناآشنا ہیں‘
منگل 7 اپریل 2020 6:43
توصیف رضی ملک -اردو نیوز، کراچی
کراچی میں ہزاروں برمی، بنگالی اور افغان آباد ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز
پاکستان میں لاک ڈاؤن کے دوران مستحقین کو راشن کی تقسیم کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو طریقہ کار وضع کیا ہے اس میں شناختی کارڈ ہونا لازمی ہے، تاہم کراچی میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کی شہریت متنازع ہے اور شہری حقوق نہ ملنے کی وجہ سے وہ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور حالیہ لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں افغان شہری آباد ہیں جو سرد جنگ کے بعد پاکستان آئے جبکہ برمی افراد کی بھی کثیر تعداد یہاں رہائش پذیر ہے جو صدر ایوب خان کے دور میں روہنگیا کے خلاف کارروائیوں کے دوران برما سے پاکستان آ کر آباد ہوئی تھی۔
کراچی میں وہ بنگالی پاکستانی بھی لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں جنہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کو اپنا وطن قرار دیتے ہوئے یہیں قیام کیا۔
شناخت کے کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کی جانب سے انہیں سہولیات مہیا نہیں کی جاتیں، نہ انہیں ہسپتال میں علاج میسر ہوتا ہے نہ نوکری ملتی ہے نہ ہی یہ لوگ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، اور اب مستحق ہونے کے باوجود انہیں امدادی راشن بھی نہیں مل رہا۔
آل پاکستان بنگالی اتحاد کے رہنما شیخ سراج نے اردو نیوز کو بتایا کہ کراچی میں 20 لاکھ سے زیادہ بنگالی پاکستانی آباد ہیں لیکن حکومت ان کی شہریت اور حقوق سلب کرتی جا رہی ہے، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ایسے ہیں جن کے شناختی کارڈ بلاک ہیں یا ان کا اندراج نہیں کیا جا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'شناختی کارڈ نہ ہونے کے وجہ سے نہ تو یہ لوگ نوکری کر سکتے نہ علاج معالجہ کروا سکتے ہیں، محنت مزدوری کر کے بمشکل جو گزر بسر ہوتی تھی لاک ڈاؤن سے اس میں بھی فاقوں کی نوبت آ گئی ہے۔'
کراچی کے ضلع وسطی میں قائم کچی آبادی ضیاء کالونی کے رہائشی شیخ سراج نے بتایا کہ ان کے علاقے میں بیشتر افراد بنگالی پاکستانی ہیں اور مزدور پیشہ ہیں، اس لاک ڈاؤن میں سب بے روزگار ہو گئے ہیں لیکن کوئی بھی حکومتی نمائندہ ان کی داد رسی کو نہیں آیا۔
شیخ سراج کا کہنا تھا کہ حکومتی نمائندے بھی ان علاقوں میں کام کرتے ہیں جہاں سے انہیں ووٹ ملنے کی توقع رہتی ہے، 'اس علاقے کے مکینوں کے تو شہری حقوق ہی سلب ہو چکے، ایسے میں حکومتی نمائندوں کو ہم میں کیا دلچسپی ہوگی بھلا۔'
سندھ میں لاک ڈاؤن کو دو ہفتے گزر جانے کے باوجود ابھی بھی صوبے کے غریب افراد اور مستحقین میں راشن کی تقسیم کا واضح طریقہ کار سامنے نہیں آیا۔ وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے ہر ضلع کی انتظامیہ کو دو کروڑ سے زائد کا فنڈز جاری کیا گیا ہے لیکن ان فنڈز کی شفاف تقسیم پر تاحال سوال اٹھ رہے ہیں۔ لوگوں کی جانب سے یہی شکوہ کیا جا رہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے دفاتر کے لاتعداد چکر لگانے کے باوجود انہیں راشن نہیں مل رہا۔
کراچی کے ساحلی علاقے ابراہیم حیدری جہاں بڑی تعداد میں مچھیرے آباد ہیں، وہ علاقے بھی لاک ڈاؤن سے انتہائی متاثر ہوئے ہیں تاہم ابھی تک حکومتی اداروں اور فلاحی تنظیموں کی نظر سے اوجھل ہیں۔ حکومتی پابندی کے باعث ایک لانچ پر صرف چار ماہی گیر سمندر میں جا سکتے ہیں، جس سے سینکڑوں کی تعداد میں ماہی گیر بے روزگار ہوگئے ہیں۔
مچھیروں کے سماجی رہنما کمال شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ، ’جن لانچوں پہ 20-25 بندہ شکار کو جاتا تھا اب چار سے پانچ جا رہا، باقی بے روزگار ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہاں ہر گوٹھ میں مچھیروں کے ہزاروں خاندان آباد ہیں بہت سے تو ایسے ہیں جن کے پاس شناخت کے کاغذات بھی پورے نہیں۔
وزیرِاعظم عمران خان نے نادار افراد کی مالی امداد کے لیے جو احساس پروگرام شروع کیا ہے اس کے لیے شرط ہے کہ مستحقین کے پاس نا صرف شناختی کارڈ ہو بلکہ موبائل فون بھی ہو۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شناختی کارڈ کے بغیر موبائل سم کا اجراء نہیں ہوتا لہٰذا متنازع شہریت والے افراد موبائل سم نہیں خرید سکتے۔
ابراہیم حیدری میں تعینات اسسٹنٹ کمشنر سمیع اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں احساس پروگرام کے لیے جو درخواستیں موصول ہوئی تھی ان میں سے جن کے موبائل نمبر یا شناختی کارڈ نہیں تھے ان کے کوائف آگے نہیں بھجوائے گئے کیوں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے وضع کردہ سکیم صرف ان افراد کے لیے ہے جن کے کوائف مکمل ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جن کا بائیو ڈیٹا مکمل نہیں انہیں فلاحی اداروں کے تعاون سے امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
تاہم، اس کے برعکس، کمال شاہ نے بتایا کہ ماہی گیروں کی مدد کو فلاحی ادارے بھی نہیں آرہے۔ ’ہزار مچھیروں کی بستی میں ڈیرھ دو سو تھیلے راشن کے مل جانے سے مسئلہ حل نہیں ہو رہا، یہ وہ لوگ ہیں جو لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر ‘ہوئے اور شہر والے ان کے وجود سے بھی نا آشنا ہیں۔‘
سندھ حکومت نے بھی راشن کی تقسیم کا جو طریقہ اپنایا ہے اس میں بھی شناختی کارڈ کے بغیر لوگوں کو امداد ملنے کا کوئی سلسلہ نہیں۔ صوبائی حکومت نے جو لسٹیں بنائی ہیں وہ انہی لوگوں کی ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ موجود ہیں۔ اس معاملے پہ وزیرِ اعلیٰ سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے اردو نیوز کو بتایا کہ سندھ حکومت کو اس مسئلے کا ادراک ہے اور ان کے علم میں ہے کہ کراچی میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کی شہریت متنازعہ ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ سندھ حکومت نے فلاحی تنظیموں سے رابطہ کیا ہے تا کہ جن لوگوں کو حکومت راشن نہیں دے سکتی انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ فلاحی ادارے راشن مہیا کر سکیں۔
فشیریز سے متصل مچھر کالونی میں ہزاروں کی تعداد میں بنگالی پاکستانی آباد ہیں جن میں سے کافی تعداد ان کی ہے جن کی شہریت کے حقوق حکومت نے سلب کر کے ان کے یا ان کے خاندان والوں کے شناختی کارڈ بلاک کر دیے ہیں۔ مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ سندھ حکومت نے فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر اس علاقے میں راشن کے 12 سو بیگ تقسیم کیےاور وہ دوسرے علاقوں میں بھی اسی ماڈل پہ عملدرآمد کریں گے جہاں بنگالی یا افغان آباد ہیں۔
دوسری جانب فلاحی تنظیموں کی جانب سے مخیر حضرات کے تعاون سے مستحقین کو راشن کی فراہمی جاری ہے۔ جعفریہ ڈیزاسٹر سیل (جے ڈی سی) کراچی میں راشن کی تقسیم میں پیش پیش تھے، تنظیم کے ترجمان عون عباس نے اردو نیوز کو بتایا کہ جے ڈی سی کی جانب سے روزانہ 10 ہزار سے زائد راشن بیگز کی تقسیم ہو رہی ہے جو لوگوں کے گھروں پر بھجوائے جاتے ہیں۔
عون عباس نے بتایا کہ جن افراد کو راشن دیا جاتا ہے جے ڈی سی ریکارڈ کے لیے ان کے شناختی کارڈ کی کاپی رکھ رہی ہے، اور یہ ڈیٹا حکومت سے بھی شئیر کیا جا رہا ہے تا کہ ڈپلیکیشن نہ ہو۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بستی یا آبادی جہاں کے مکینوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ان کے کمیونٹی کے کسی سربراہ کی جانب سے شخصی اور تحریری ضمانت پہ راشن ان کے حوالے کیا جاتا ہے۔
‘جے ڈی سی اب تک مندر سے منسلک ہندوؤں اور عیسائی سینیٹیشن ورکرز میں بھی راشن تقسیم کر چکی ہے، ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھے تاہم ان کا ڈیٹا مندر اور چرچ میں موجود تھا لہٰذا ہم نے انہی کے تعاون سے ان کو راشن دیا۔’