دنیا کے مختلف ممالک میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال بڑھ رہا ہے اور ہر شعبے میں اس سے استفادہ کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں سرکاری سطح پر اب تک اس کے فروغ کے لیے کوئی پالیسی بن سکی ہے نہ ہی مختلف شعبوں میں اس کے استعمال کے لیے مناسب اقدامات کیے گئے ہیں۔
تاہم پاکستان کے نجی شعبے میں اے آئی کا استعمال کسی حد تک ضرور بڑھ رہا ہے اور نجی شعبے میں کام کرنے والے نوجوان اپنے کام اور کاروبار کو اے آئی کی مدد سے منافع بخش بنا رہے ہیں۔
انہی نوجوانوں میں ایک نام راولپنڈی کے رہائشی اعظم طارق کا ہے جنہوں نے یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی مارکیٹنگ کی کمپنی کھولی اور کم سرمائے اور محدود انسانی وسائل جیسی مشکلات پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے قابو پایا۔
مزید پڑھیں
-
ڈیپ سیک کمپنی نے ’چیٹ جی پی ٹی‘ کا ڈیٹا چوری کیا؟Node ID: 885144
-
مصنوعی ذہانت کے محفوظ استعمال میں سعودی عرب خطے میں سرفہرستNode ID: 885780
اعظم طارق نے اُردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے مختلف اے آئی ٹولز جن میں چیٹ جی پی ٹی، ڈیپ سیک، مڈ جرنی اور وژوئیل مائنڈ وغیرہ شامل ہیں، کی مدد سے بہتر مارکیٹنگ کرکے اپنی کمپنی کو نقصان سے نکال کر اس کا منافع دوگنا کر چُکے ہیں۔
نجی شعبے میں انفرادی سطح پر پیش رفت کے برعکس پاکستان کے سرکاری اداروں بشمول جامعات اور سکولوں میں اے آئی کے فروغ کے لیے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔
ماہرین کے خیال میں پاکستان کے سرکاری اداروں بالخصوص یونیورسٹی کی سطح پر روایتی کام کے طریق کار کو پسند کرنے والے فیصلہ ساز اے آئی کے استعمال میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں جبکہ حکومت بھی اے آئی کو اپنانے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے اور اب تک کوئی حتمی پالیسی تشکیل نہیں دے سکی۔
طلبہ کو اے آئی سے دور رکھنے کی پالیسی
پاکستان میں اے آئی پر کام کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان حسین زیدی کے خیال میں اے آئی کو اپنانے کے لیے بچوں میں شروع سے ہی اس کو فروغ دینا چاہیے۔
ڈاکٹر سید عرفان حسین زیدی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں اس کے برعکس طلبہ کو بتایا جا رہا ہے کہ اے آئی کا استعمال ناجائز ہے اور تعلیمی اداروں میں طلبہ کو مصنوعی ذہانت سے دور رکھنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔‘

سید عرفان زیدی سمجھتے ہیں کہ اے آئی سے استفادے سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی صلاحیتیوں کو ختم کر رہے ہیں بلکہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے آپ اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھار سکتے ہیں۔
وفاقی وزارت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سینیئر رکن سید جنید امام کے مطابق حکومت پاکستان میں اے آئی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
سید جنید امام نے بتایا کہ چند ماہ میں پاکستان کی پہلی اے آئی پالیسی کا اجراء ہو جائے گا۔
’اس پالیسی کا مقصد ایک ایسا نظام بنانا ہے جو اے آئی کے ذمہ دارانہ استعمال کے ذریعے اس کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کو بروئے کار لانا ممکن بنا سکے۔‘
نئی ٹیکنالوجی سے خوفزدہ افسرشاہی
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر روحان ذکی بھی مصنوعی ذہانت کے استعمال میں پاکستان کو بہت پیچھے دیکھتے ہیں۔
اُنہوں نے اے آئی کے استعمال کو بڑھانے کے لیے بچوں کے لیے سکولوں میں ڈیجیٹل نصاب کو ضروری قرار دیا ہے تاکہ بچے بڑے ہو کر ٹیکنالوجی کو اپنا سکیں۔

اُنہوں نے اے آئی کے فروغ میں بڑی رکاوٹ سرکاری سطح پر روایتی نظام کو پسند کرنے والے افراد کو قرار دیا ہے جو نئی ٹیکنالوجی کے آنے سے اپنے لیے مسائل پیدا ہو جانے کے خدشات میں رہتے ہیں۔
روحان ذکی کا کہنا تھا کہ ’اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک مصنوعی ذہانت کو ہر شعبے کا لازمی جزو قرار دے رہے ہیں، اگر ہم نے اپنی ترجیحات نہ بدلیں تو کم از کم ٹیکنالوجی میں دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔‘
’جامعات میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی کوئی پالیسی نہیں‘
کیا پاکستان کی جامعات میں اے آئی کے استعمال کے حوالے سے کوئی پالیسی موجود ہے؟
اس سوال کے جواب میں ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر جنید غوری نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ پاکستان کی جامعات میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے حوالے سے کوئی پالیسی گائیڈ لائنز ہی نہیں ہیں تاہم بادی النظر میں اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ اے آئی کا ضرورت کے مطابق استعمال کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’مصنوعی ذہانت کا استعمال اپنے کسی بھی کام کو بہتر بنانے کے لیے ضرور کیا جانا چاہیے لیکن اس ٹول کو اپنی صلاحیتوں کے متبادل کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘