کورونا وائرس کا علاج تو ابھی تک دریافت نہیں ہوا البتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کلوروکوئین دوا کو کورونا کے مریضوں کے لیے استعمال میں لانے کے اعلان کے بعد کلوروکوئین بنانے والے ملکوں میں اس دوا کی مانگ بہت بڑھ گئی ہے۔
پاکستان میں بھی کلوروکوئین کی دستیابی کے حوالے سے ایک طرح کی بحرانی کیفیت ہے۔ اب تک پاکستان میں کل 38 ایسی دواساز کمپنیاں ہیں جن کے پاس کلوروکوئین دوائی بنانے کا اجازت نامہ ہے تاہم تقریباً سبھی کمپنیاں اب یہ دوائی نہیں بنا پا رہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔
کلوروکوئین ہے کیا؟
کلوروکوئین بنیادی طور پر ایک ملیریا مخالف دوا ہے جو بہت عرصے تک زیادہ مچھروں والے ممالک میں بہتات سے استعمال ہوتی رہی ہے۔ کلوروکوئین کی گولیوں میں بنیادی جزو ہائیڈراکسی کلوروکوئین ہوتا ہے جو ملیریا کے خلاف ایک موثر دوا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کیا ڈاکٹر کورونا وائرس کی دوا تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے؟Node ID: 456721
-
'کورونا کی دوا منظور': ٹرمپ کا دعویٰ غلط؟Node ID: 466226
-
’کلوروکوئن نقصان دہ ہو سکتی ہے‘Node ID: 467256
ادویات کے ماہر ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان شیروانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'کلوروکوئین کا کام یہ ہے کہ چونکہ ملیریا کے جراثیم خون کے سرخ ذرات پر پلتے ہیں تو کلوروکوئین خون کے ان سرخ ذرات میں ایسی ترمیم کر دیتی ہے جو ان جراثیموں کو مزید خوراک فراہم کرنے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔'
پاکستان میں کلوروکوئین کی دوا بنانے کے لیے ہائیڈراکسی کلوروکوئین نامی سالٹ درآمد کیا جاتا ہے۔ چین، انڈیا اور جاپان دنیا کے وہ ممالک ہیں جو سب سے زیادہ ہائیڈراکسی کلوروکوئین برآمد کرتے ہیں۔
پاکستان میں ادویات ساز کمپنیوں کی تنظیم پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیر ناگرا نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'اس وقت کلوروکوئین دوا بنانے والا خام مال دستیاب نہیں ہے۔ پہلے ہائیڈراکسی کلوروکوئین ایک کلو 10 ڈالر میں دستیاب ہوتی تھی اب اس کی قیمت ایک کلو گرام 250 ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے کوئی بھی کمپنی اس کو بنانے کا رسک نہیں لے رہی۔'
پاکستان میں کلوروکوئین کے بحران کی وجوہات
شوکت علی (فرضی نام) پاکستان کے شہر لاہور میں ادویات کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 'پچھلے دو ہفتے سے کلوروکوئین نایاب ہو چکی ہے۔ جتنی بھی دوائی مارکیٹ میں دستیاب تھی وہ لوگوں نے خرید کے ذخیرہ کر لی ہے اور اب پیچھے کسی طرح کی سپلائی نہیں آ رہی۔'
کلوروکوئین ایک سستی دوا ہے، 100 گولیوں کا ڈبہ پونے تین سو روپے میں ملتا تھا اب تو پانچ ہزار میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ یہ سب اس وقت کے بعد سے ہے جب اس دوائی کو کورونا کے علاج کے طور پر تجویز کیا گیا حالانکہ اب اس بات کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے کہ یہ دوا واقعی پراثر ہے بھی یا نہیں، لیکن اس سے یہ ضرور ہوا ہے کہ مارکیٹ میں دوائی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے حتیٰ کہ ملیریا کے مریضوں کے لیے بھی دوا دستیاب نہیں ہے۔
دوسرے لفظوں میں جتنی دوائی مارکیٹ میں دستیاب تھی وہ ذخیرہ اندوزوں کی نذر ہو گئی ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کمپنیوں کے پاس مزید دوائی بنانے کی گنجائش نہیں رہی۔
عزیر ناگرا نے بتایا کہ 'یہ دوائی ایسی تھی جس کا استعمال پاکستان میں بھی کئی برسوں سے کافی کم تھا اور قیمت پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے فکس کر رکھی تھی۔ اس حساب سے کمپنیوں کو کاروباری لحاظ سے یہ دوائی بنانا منافع بخش نہیں لگتا تھا اس لیے مارکیٹ میں اس کی مقدار کم تھی اور اس کا خام مال بھی کم ہی درآمد کیا جاتا تھا۔'
'کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اچانک یہ دوائی اتنی قیمتی ہو جائے گی، ہم لوگ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے اب کچھ اقدامات ہو رہے ہیں۔'
بحران کی تیسری وجہ موجودہ حالات میں اس دوائی کی قیمت میں غیر معمولی لاگت کے باعث مہنگا ہونا ہے۔ دستیاب قوانین کے باعث ابھی حکومت نے اس کی نئی قیمت تجویز نہیں کی ہے۔
ادویات ساز کمپنیاں یہ سمجھتی ہیں کہ حکومت تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ چیئرمین پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت اب سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ ابھی دو روز پہلے کچھ قوانین میں نرمی کی گئی ہے اور ہر ادویہ ساز کمپنی کو کلوروکوین بنانے کا اجازت نامہ دینے کی ہامی بھر لی ہے۔ اس سے پہلے یہ تھوڑی کمپنیوں کے پاس تھا۔
'اس کے علاوہ ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ خام مال کی سستی درآمد میں بھی حکومت اپنا کردار ادا کرے گی اور پھر اسی طرح نئی قیمتوں کا بھی تعین ہونا چاہیے۔'
خیال رہے کہ پاکستان کی فارما سوٹیکل کی صنعت 9 ارب ڈالر سالانہ کی ہے اور کپڑے کی صنعت کے بعد سب سے زیادہ برآمدات اسی شعبے سے وابستہ ہیں تاہم اس صنعت کا سب سے زیادہ انحصار خام مال کی درآمد پر ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں