پاکستان میں تقریباً ایک ماہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث جاری لاک ڈاؤن سے نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ کاروبار بند ہونے کی وجہ سے جہاں کئی افراد متاثر ہوئے ہیں، وہیں گھروں سے کاروبار چلانے والی خواتین بھی پریشانی کا شکار ہیں۔
متعدد خواتین کپڑوں کی سلائی، کھانا سپلائی کرنے یا گھروں میں ڈے کیئر کھول کر معمولات زندگی چلا رہی تھیں۔
راضیہ احمد کا شمار بھی انہی خواتین میں ہوتا ہے جو سلائی کے کام کی کمائی سے گھر کا خرچ چلانے میں شوہر کی مدد کرتی ہیں۔
راضیہ کے تین بچے ہیں اور سب سے چھوٹا بیٹا پیدائشی معذور ہے۔ ان کے شوہر بجلی کمپنی میں معمولی ملازم ہیں۔ اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے راضیہ نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اُن کا کام آج کل نہ ہونے کے برابر ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس سیزن میں عید کے کپڑوں کی سلائی کے لیے بکنگ شروع ہو جاتی تھی، لیکن ابھی تک کسی گاہک نے بکنگ کے لیے رابطہ نہیں کیا۔
’عید سے پہلے میں 60 سے زیادہ جوڑوں کی سلائی کر لیتی تھی جس سےعید بھی اچھی گزر جاتی تھی۔ مگر موجودہ صورتِ حال میں ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘
اپنے معذور بیٹے سے متعلق اُنھوں نے بتایا کہ علاج معالجے اور ماہانہ دوائیوں کے لیے 4 سے 5 پانچ ہزار چاہیے ہوتے ہیں، اور اُن کے شوہر کی تنخواہ 20 ہزار روپے ہے، جس میں مشکل سے گھر کا خرچہ پورا ہوتا ہے۔ اسی تنخواہ میں سے گھر کا کرایہ بھی دینا ہوتا ہے۔
یہ کہانی صرف ایک گھر کی نہیں بلکہ راضیہ جیسی کئی ایسی خواتین ہیں جو گھر کا خرچہ چلانے میں اپنے شوہر کی مدد کر رہی ہیں یا پھر خود پوری فیملی کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔
فوزیہ سہیل کی بھی ایسی ہی کہانی ہے جن کا کاروبار کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد سے متاثر ہوا ہے۔ فوزیہ خود کھانا بنا کر دفاتر میں ڈیلور کرتی تھیں۔
اُنھوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ 20 دن سے نہ تو کسی دفتر میں کھانا ڈیلور کیا اور نہ ہی گھر میں۔ احتیاط برتتے ہوئے لوگ باہر کا کھانا کھانے سے گریز کر رہے ہیں، اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے دفاتر ویسے ہی بند ہیں۔
فوزیہ نے بتایا کہ اُن کے شوہر پانچ سال پہلے فوت ہو گئے تھے جس کے بعد سے پانچ بچوں کی ذمہ داری اُنہی کے کندھوں پر آ گئی۔ فوزیہ اپنے چاروں بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھانے کے ساتھ ساتھ دیگر ذمہ داریاں بھی نبھا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کی جانب سے سکول کی فیسوں میں 20 فیصد کمی کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہوں، کچھ تو معاشی مشکل آسان ہوگی۔‘
فوزیہ کو امید ہے کہ رمضان سے پہلے حالات بہتر ہو جائیں گے اور تمام دفاتر کھل جائیں گے۔
’میں دفاتر میں افطاری بنا کر بھیجتی تھی، جس سے رمضان کا مہینہ سکون سے گزر جاتا تھا۔‘
ساتھ ہی فوزیہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر لاک ڈاؤن ختم نہ ہوا تو ان کے بچے رمضان اورعید کی خوشیوں سے محروم ہو جائیں گے۔
فوزیہ سفید پوش خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ 14 اپریل کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی کی جائے تاکہ ان کا کاروبار ایک مرتبہ پھر شروع ہو جائے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن نافذ ہوئے ایک ماہ ہونے والا ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں