ملک بوستان کے مطابق روزانہ تقریباً 1 کروڑ ڈالر غیر قانونی طریقوں سے پاکستان سے باہر جاتا ہے (فوٹو:اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں سمگلنگ اور زخیرہ اندوزی کے خاتمے کے لیے فوری طور پر نئے صدارتی احکامات جاری کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے ذریعے ماہ رمضان میں ہونے والی متوقع مہنگائی اور معیشت کی خرابی سے نمٹنے کی کوشش کی جائے گی۔
پاکستان سے پڑوسی ملکوں کو سمگل ہونے والی اشیا میں گندم اور امریکی ڈالرز سرفہرست ہیں جو ہر طرح کی پابندیوں اور حکومتی کوششوں کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں ملک سے باہر جاتے رہتے ہیں۔
بالخصوص امریکی ڈالرز کو غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر بھیجنے کے لیے کئی سائنسی طریقے اپنائے جاتے ہیں جن کے ذریعے حکومتی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہر ماہ کروڑوں ڈالرز باہر بھجوا دیے جاتے ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک کروڑ ڈالر غیر قانونی طریقوں سے پاکستان سے باہر جاتا ہے۔
پاکستان سے ڈالر باہر بھجوانے کا مقبول ترین طریقہ ’رینٹڈ فیمیلیز‘ یا شخصیات کا ہے جن کے ذریعے شخصی طور پر ڈالرز کی بڑی کھیپ پاکستان سے باہر بھجوائی جاتی ہے اور بھیجے جانے والی رقم کے منزل مقصود پر پہنچ جانے کے بعد اس کو لے جانے والے خاندان کو طے شدہ کرایہ ادا کر دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے مشہور کیس ماڈل گرل ایان علی کا ہے جن کو 2015 میں منی لاننڈرنگ کے الزام میں اسلام آباد ائر پورٹ سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ڈالرز کی بیرون ملک سمگلنگ کے لیے پورا غیر قانونی نیٹ ورک کام کر رہا ہوتا ہے جنہوں نے اپنا مال (ڈالرز) باہر لے جانے کے لیے پورے کے پورے خاندان اور گروہ معاوضے پر رکھے ہوتے ہیں۔
کرنسی کے کاروبار سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تجارت کرنے والے ان افراد کے کاروندوں کا باقاعدہ ریٹ طے کیا جاتا ہے۔
ان کارندوں کو سمگلنگ کے دھندے میں ملوث افراد کی زبان میں ’بکرا‘ بولا جاتا ہے جو پکڑے جانے کی صورت میں اپنی قربانی دے دیتا ہے اور ڈالرز بھجوانے والے اصل شخص یا گروہ کا نام راز میں رکھتا ہے۔
اس خدمت کے عوض اس کو روپوں میں فی ڈالر رقم دی جاتی ہے جو دو روپے سے لے کر کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ عام طور پر ڈالرز پشاور پہنچانے کا کم ازکم ریٹ فی ڈالر دو روپے ہوتا ہے لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ جبکہ پشاور سے کابل ڈالر پہنچانے کا ریٹ پاکستان کے کسی بھی شہر سے پشاور پہنچانے سے زیادہ ہوتا ہے۔
پاکستان سے ڈالروں کی اکثریت افغانستان اور ایران جاتی ہے اور سمگلنگ کا بڑا حصہ زمینی بارڈرکراسنگز کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔ تاہم اس تجارت کا کچھ حصہ دبئی اور دیگر خلیجی ریاستوں سے بھی منسلک ہے۔
دبئی ڈالرز لے جانے والے زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو ایک دن ڈالرز کے بیگز بھر کر وہاں لے کر جاتے ہیں اور دوسرے دن امپورٹڈ سامان جس پر امپورٹ ٹیکس بہت زیادہ ہے وہاں سے لے کر پاکستان آ جاتے ہیں۔
افغانستان ڈالرز بھیجنے کا ایک اور طریقہ گڈز کے ٹرک ہیں جو قانونی تجارت کے لیے مختلف اشیا پاکستان سے افغانستان لے کر جاتے ہیں۔ ان ٹرکوں میں دوسرے سامان کی پیٹیوں کے اندر چند پیٹیاں ڈالرز کی بھی رکھ دی جاتی ہیں جو منزل مقصود پر پہنچ کر مطلوبہ شخص وصول کر لیتا ہے۔
ملک بوستان نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں ڈالرز سمگل ہونے کی سب سے بڑی وجہ وہاں کرنسی کی قانونی مارکیٹ کا وجود نہ ہونا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فارن ایکسچینج میں موجود ڈالرز کی کل مالیت کا تقریباً چالیس فیصد تک سمگل ہوتا ہے اور جب حکومت کسی وجہ سے بارڈر بند کرتی ہے تو ان کے قانونی کاروبار میں تیس فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔
ملک بوستان کے مطابق سمگلنگ کے خلاف کارروائی ان کی ایسوسی ایشن کا ایک پرانا مطالبہ ہے اور انہوں نے اس مقصد کے لیے گزشتہ سال وزیراعظم عمران خان سے ملاقات بھی کی تھی جس کے بعد مختلف حکومتی اقدامات کی وجہ سے سمگلنگ میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈالرز کی سمگلنگ کے مکمل خاتمے کے لیے حکومت کو درآمدات پر ٹیکس کم کرنا چاہیے اور پاکستان میں بکنے والی ہر غیر ملکی چیز کی باقاعدہ رجسٹریشن ہونی چاہیے۔
اس کے علاوہ ’انڈر انوائسنگ‘ پر مکمل پابندی ہونی چاہیے اور ایسا کرنے والے تاجر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔