لاک ڈاؤن کی وجہ سے 2 کروڑ سے زائد امریکی بے روزگار ہو چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکہ میں نافذ لاک ڈاؤن سے جہاں ایک طرف کورونا کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں مدد مل رہی ہے وہیں لاکھوں امریکی اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک طرف وہ وائرس کے خوف میں مبتلا ہیں تو دوسری جانب خراب ہوتے معاشی حالات سے پریشان ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق گزشتہ ماہ 2 کروڑ 22 لاکھ امریکی کورونا وائرس کے باعث بے روز گار ہو چکے ہیں۔
’ٹیرا تھامس‘ بھی بے روز گار ہونے والے لاکھوں امریکیوں میں سے ایک ہیں جو اس المیے سے دوچار ہیں کہ پیٹ پالنے کا بندوبست کریں یا گھر کا کرایہ دیں۔
ٹیرا نے اپنے چار ہمسایوں سمیت 833 ڈالر کا ماہانہ کرایہ دینے سے انکار کر دیا ہے اور بلڈنگ کے مالک سے احتجاج کر رہی ہیں کہ وہ مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرایہ معاف کر دے۔
کورونا سے پہلے ٹیرا تھامس شادی اور دیگر تقریبات کے دوران پھولوں کی سجاوٹ کا کام کرتی تھیں، لیکن کاروباری مراکز بند ہونے اور تمام تر سرگرمیاں رک جانے کی وجہ سے کمائی کے ذرائع ختم ہوگئے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق چند مالکان نے کرایہ قسطوں میں ادا کرنے کی تجویز دی ہے۔ اکثر امریکی ریاستوں نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے مالکان کو پابند کیا ہے کہ وہ کسی کرائے دار کو گھر سے نہیں نکالیں گے۔ لیکن لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی یہ پابندی بھی ختم ہو جائے گی، اور کرائے داروں کو گزشتہ ماہ کے کرائے یا تو ادا کرنا ہوں گے یا پھر بلڈنگ چھوڑنا ہوگی۔
سانس فرانسسکو کی ڈسٹرکٹ سپروائزر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کیلی فورنیا کے گورنر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ماہانہ کرائے معاف کروائیں اور مالکان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہوائے بینک کو ادا کی جانے والی پراپرٹی کی قسطوں میں توسیع کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگ پچھلے کرائے کی ادائیگی کے بوجھ تلے دب گئے تو وہ جلد ہی گلیوں میں آجائیں گے۔
صدر ٹرمپ نے کم آمدنی والی امریکی فیملیز کی امداد کرنے اور ان کو ماہانہ 1200 ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا، جو شاید ماہانہ بل ادا کرنے اور دیگر معاملات چلانے کے لیے کافی نہ ہوں، بالخصوص شہروں میں رہنے والوں کے لیے جہاں صرف ماہانہ کرایہ ہی ایک ہزار ڈالر سے زیادہ ہے۔
2018 میں شائع کی گئی سرکاری رپورٹ کے مطاق 40 فیصد امریکیوں کے پاس کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے 400 ڈالر سے کم کی سیونگ ہے۔
امریکہ میں شہریوں کے مالی تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے سرکاری سطح پر کوئی خاطر خواہ پالیسی نہیں ہے اور اکثر شہری بینکوں کے قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔