ریلوے سٹیشن پر قلی ماہانہ 15 سے 20 ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز
39 سالہ عامر شہزاد کی عمر 14 برس تھی جب ان کے والد کو کسی کے گھر میں مزدوری کرتے ہوئے آنکھ میں چوٹ لگی اور وہ ہمیشہ کے لیے نابینا ہو گئے۔
اس کے کچھ ہی عرصے بعد عامر کے بڑے بھائی جو مستری کا کام کرتا تھے ایک حادثے کے نتیجے میں معذور ہو گئے۔ عامر سے چھوٹے دو بھائی اور ایک بہن ہیں، گھر کے بڑوں کے معذور ہو جانے کے بعد ان سب کی کفالت کی ذمہ داری اس پر آ گئی۔
عامر مزدوری تلاش کرتے کرتے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے گاؤں گوریاں سے راولپنڈی ریلوے سٹیشن پہنچ گئے جہاں ان کو قلی کا کام مل گیا۔
ابھی وہ ریلوے سٹیشن پر دوسروں کے بھاری سامان کا بوجھ آسانی سے اٹھانا سیکھ ہی رہے تھے کہ ایک روز اس کی والدہ کرنٹ لگنے سے وفات پا گئیں۔ ان کا سفر تمام ہوا مگر عامر کے ذاتی بوجھ میں اضافہ ہو گیا۔
یہ ذاتی بوجھ اٹھانے اور گھر کا نظام چلانے کے لیے عامر کوایک ہمسفر کی ضرورت تھی۔ سو وقت سے پہلے شادی کرنا پڑی۔
اب عامر کے اپنے تین بچے ہیں، ایک سات سالہ بیٹا اور چھ اور دو سال کی بیٹیاں۔
پچھلے کچھ عرصے سے عامر اپنی زندگی کی پٹڑی پر رفتار سے مطمئن تھے۔ ریلوے سٹیشن پر لوگوں کا بوجھ اٹھا اٹھا کر وہ ماہانہ 15، 20 ہزار روپے کماتے تھے، گاؤں میں ان کے بچے بڑے ہو رہے تھے اور گھر والوں نے کچھ مویشی پال رکھے تھے، جس سے عامر اور ان کے خاندان کی زندگی کا سفر مشکل سے ہی، لیکن کٹ رہا تھا۔
گزشتہ ماہ عامر چھٹی لے کر 10 دن کے لیے اپنے گاؤں گئے۔ وہاں اپنی بیوی سے بچوں کے مستقبل کے بارے میں باتیں کیں اور ان کو تعلیم دلوانے کے خواب دکھائے۔
ان خوابوں کا خمار لے کر عامر نے راولپنڈی ریلوے سٹیشن واپسی کا ارادہ باندھا تاکہ ان کو حقیقت میں بدلنے کے لیے وہ مزید سامان اٹھا سکے۔
ابھی وہ گھر سے جانے کے لیے سامان باندھ رہے تھے کہ کورونا وائرس پھیلنے کی خبر آ گئی، اور تمام راستے بند ہو گئے۔
عامر اب گزشتہ ایک ماہ سے بے روزگار اپنے گھر پر ہہں، اور ان کو لگتا ہے کہ زندگی کی گاڑی ایسے رک گئی ہے جیسے کسی نے اس کی پٹڑی کے ایک حصے کو بم لگا کر اڑا دیا ہو۔
عامر نے بتایا کہ ’اب تو لگتا ہے کہ ایک کے بجائے دو ماہ ہو گئے ہیں۔ بے روزگار رہ رہ کر وقت گزر ہی نہیں رہا۔ باہر جاتا ہوں تو دل نہیں لگتا، گھر آتا ہوں تو گھر والے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھتے ہیں، جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیا اب کبھی خرچہ ملے گا یا میں ہمیشہ اسی طرح بے روزگار رہوں گا۔‘
عامر کو پتہ چلا تھا کہ حکومت تمام بے روزگار ہو جانے والے قلیوں کو بھی مشکل وقت گزارنے کے لیے 12 ہزار روپے فی کس دے گی، لیکن ابھی تک اس سے کسی نے مدد کے لیے رابطہ نہیں کیا۔
عامر کے بقول ان کو کچھ دوسرے ساتھی قلیوں کے ہمراہ ریلوے سٹیشن پر بلایا گیا تھا، وہ سمجھے کہ شاید پیسے دینے کے لیے بلایا گیا ہوگا لیکن وہاں سے چند ڈبے راشن کے دے کر روانہ کر دیا گیا۔
’اتنے کا تو راشن نہیں جتنا ہم کرایہ لگا کر یہاں سے راولپنڈی گئے۔ کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ چل نہیں رہی تھی اور ہمیں وہاں جانے کے لیے گاڑی کرائے پر لینا پڑی۔ حکومت کو علم ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنے خرچے چلانے کے لیے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔ اور اس بیماری کے جانے کے ابھی کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔‘
58 سالہ محمود حسین کو راولپنڈی سٹیشن پر قلیوں کا سرخ لباس پہنے 35 برس بیت گئے ہیں۔
ان کے آٹھ بچے ہیں۔ وہ چھ ماہ پہلے معدے کے مرض کا شکار ہوئے تو علاج کے لیے بنک سے 50 ہزار روپے قرض لینا پڑا۔ اب ان کو قرض چکانے کے لیے ہر ماہ تقریباً پانچ ہزار روپے کی قسط بنک میں جمع کروانا پڑتی ہے۔
گزشتہ ایک ماہ سے اس قسط کے پیسے بھی جمع نہیں ہوئے۔ محمود حسین کو سمجھ نہیں آ رہی کہ موجودہ حالات کب ٹھیک ہوں گے۔ اور کیسے ٹھیک ہوں گے؟
’مزدوری پر بھی پابندی ہے۔ اگر ٹرینیں نہیں چل رہیں تو میں مزدوری ہی کر لیتا لیکن گھر سے ہی نہیں نکلنے دیتے۔ اگر گھر سے نہیں نکلوں گا تو مزدوری کیسے کروں گا، مزدوری نہیں کروں گا تو پیسے نہیں ملیں گے اور میرے تو حالات ویسے ہی خراب ہیں۔‘