عرب نیوز کا مقابلہ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون اور لبنانی ڈیلی سٹار کے ساتھ تھا (فوٹو: اے این)
ہشام اور محمد حافظ نامی دو بھائیوں کا خواب تھا کہ وہ سعودی عرب سے انگریزی زبان کا روزنامہ شائع کریں۔ انہوں نے 1972 میں اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا کہ وہ اس خواب کو حقیقت میں کیسے بدل سکتے ہیں۔
تقریباً ہر وہ شخص جس سے انھوں نے اس بارے میں بات کی اس نے ان کے اس آئیڈیا کی تکمیل کو مشکوک سمجھا۔ اپنے ارادے سے پیچھے نہ ہٹنے والے بھائیوں نے 1974 میں اپنے منصوبے کو آگے بڑھایا اور ضروری سامان خریدنا شروع کیا۔ انہوں نے اخبار کے پہلے ایڈیٹر ان چیف کے طور پر احمد محمود کی خدمات حاصل کیں اور صحافیوں کی ایک ٹیم بھرتی کرنے کے لیے انہیں پاکستان بھیجا۔
عرب نیوز کا پہلا شمارہ 16 صفحات پر مشتمل ٹیبلائڈ 20 اپریل 1975 کو جدہ کے ایک چھوٹے سے گیراج سے شائع ہوا تھا۔ اس کی فوری مقبولیت اور اشتہارات کی تعداد کی بدولت اگست کے آخر تک یہ ایک بڑے سائز کے اخبار کی صورت میں سامنے آ چکا تھا۔
فاروق لقمان جو جولائی 2019 میں 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے، اخبار کے آغاز ہی سے ساتھ تھے اور 18 سال بعد ایڈیٹر ان چیف بنے۔
انہوں نے اپنی کتاب 'گلوبلائزیشن آف دی عریبک پریس' میں حافظ برادران اور ان کے ناقابل یقین سفر کی کہانی سنائی جو عرب نیوز کے اجرا کے ساتھ شروع ہوئی اور مشرقِ وسطیٰ کے سب سے بڑے پبلشنگ ہاؤس میں تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ 'ابتدائی دنوں میں اس اخبار میں صرف چھ ملازمین تھے جن میں ایڈیٹر ان چیف بھی شامل تھے۔'
فاروق لقمان جو اخبار کے آغاز میں مینجنگ ایڈیٹر تھے نے بتایا کہ 'ہم خبریں لکھنے سے لے کر خبروں کا ترجمہ کرنے اور صفحات کے لے آؤٹ تک سب کچھ کر رہے تھے۔'رائٹنگ، ایڈیٹنگ اور لے آؤٹ سے لے کر ایڈورٹائزنگ اور ایڈمنسٹریشن تک سارا کام گیراج میں ہوتا تھا۔'
لقمان نے کہا کہ 'ہم پہلا شمارہ تیار کرنے کے لیے صبح تک کام کرتے اور پبلشرز اس وقت تک ہمارے ساتھ رہتے جب تک ہمارا کام ختم نہ ہوتا اور اخبار شائع نہ ہو جاتا۔'
ان کے مطابق 'وہ حقیقی صحافی تھے اور اکثر غلطیوں حتیٰ کہ ہجوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے تھے۔'
نو وارد عرب نیوز کا براہ راست مقابلہ پیرس سے شائع ہونے والے معروف انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون اور لبنانی ڈیلی سٹار کے ساتھ تھا جن کی سعودی عرب میں فروخت ابتدائی اشاعت کے دوسرے ہی دن شروع ہوگئی۔'
فاروق لقمان کے مطابق عرب نیوز نہ صرف یورپیوں اور امریکیوں بلکہ ایشیائیوں اور افریقیوں میں بھی مقبول ہوا۔
عرب نیوز کے پہلے ایڈیٹر ان چیف محمود نے 2005 میں ایک انٹرویو کے دوران اعلیٰ عہدے کی ملازمت کی پیش کش کو یاد کیا اور بتایا کہ 'یہ ملازمت انھیں اچانک ملی جس سے وہ حیران ہو گئے۔'
انہوں نے کہا کہ '1974 کی ایک صبح مجھے محمد علی حافظ کا فون آیا جس میں انہوں نے مجھے ان سے اور ان کے بھائی سے ملنے کو کہا۔میں اس وقت المدینہ نامی عربی اخبار کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے منصوبے کے بارے میں بتایا اور اسی سانس میں مجھے ایڈیٹر ان چیف کے عہدے کی پیش کش کر دی۔ یہ میرے لیے مکمل طور پر حیران کرنے والی بات تھی۔'
محمود نے مزید بتایا کہ 'ان کے پاس اس پیش کش پر غور کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا' کیونکہ حافظ برادران نے انہیں بتایا کہ 'پہلا شمارہ چھ ماہ کے اندر پریس میں چلا جائے گا۔'
محمود نے کہا کہ ’میں نے یہ پیش کش قبول کر لی لیکن میں نے یہ واضح کر دیا کہ مجھے انگریزی صحافت کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔' حافظ برادران کا جواب تھا کہ 'جب ایک صحافی ہو گا تو ہمیشہ صحافی ہو گا۔'
تمام نئے شائع ہونے والے اخباروں کی طرح عرب نیوز کو بھی ابتدائی مسائل کا سامنا رہا۔ کچھ آزمائشی ڈمی رنز کے بعد لقمان کی مدد سے جو انگریزی صحافت کا تجربہ رکھتے تھے کو خواہ مخواہ تنگ کرنے والی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
محمود نے کہا کہ 'وہاں چیلنجز اور آزمائشیں تھیں لیکن جوانی کے عزم اور جذبے کے ساتھ ہم نے پوری کوشش کی اور ان پر قابو پا لیا۔ عرب نیوز مشکل حالات سے نکل آیا، چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا لہٰذا ہمیں خبروں کے محدود ذرائع، تصویروں کی کمی، ناکافی افرادی قوت اور پرنٹنگ کے ناقص معیار کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سب کے باوجود حیرت کی بات یہ تھی کہ اس اخبار کو پذیرائی مل گئی۔'
اخبار کے ناشروں کی جانب سے پچھلے 45 برسوں میں شروع کی گئی بڑی تعداد میں کامیاب مطبوعات کے باوجود، خاص طور پر الشرق الاوسط، عرب نیوز نے ان کے دلوں میں ایک خاص مقام برقرار رکھا ہے۔
قارئین کو لکھے گئے ایک خط میں حافظ برادران نے لکھا کہ 'عرب نیوز کی ٹھوس بنیاد اور مالی اور صحافتی کامیابی نے دوسرے کامیاب اخبارات اور رسائل کی راہ ہموار کر دی جن میں سے اکثریت آج بھی پڑھی جا رہی ہے۔'
جہاں تک سبز رنگ والے مخصوص کاغذ جس پر عرب نیوز چھپتا ہےاس روایت کا آغاز اخبار الشرق الاوسط سے ہوا تھا۔ 1978 میں جب حافظ برادران نے عرب دنیا کے لیے اخبار شروع کیا جو لندن اور دیگر یورپی شہروں شائع ہوتا ہے تو وہ نیوز سٹینڈز پر قارئین کے لیے الشرق الاوسط کی تلاش کو آسان بنانا چاہتے تھے۔
یہ بات نوٹ کرتے ہوئے کہ مختلف زبانوں میں دستیاب سینکڑوں اخبارات میں سے تقریباً تمام سفید کاغذ پر شائع ہوتے ہیں انھوں نے الشرق الاوسط کو سبز کاغذ پر چھاپنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ اخبار نمایاں ہو سکے۔ عرب نیوز نے بعد میں اپنی ہی کمپنی کے اس اخبار کے کاغذ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے پہلے صفحے پر سبز رنگ کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔