لاک ڈاون کے دوران گھروں میں شادی کی تقریبات جاری ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز
پاکستان میں لاک ڈاؤن میں شادیوں کا انعقاد ایک خواب لگ رہا تھا تاہم ایونٹس منعقد کرنے والی کمپنیوں نے گھر بیٹھ کر ہی لوگوں کو اس کا حل تلاش کر کے دے دیا ہے۔
کورونا وائرس کے باعث کئی افراد کی شادیاں ملتوی ہو گئی تھیں کیونکہ لاک ڈاون کے سبب دفاتر اور کاروباری مراکز کے ساتھ شادی ہالز بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
اب ایونٹ آرگنائزرز نے تمام احتیاطی تدابیر (ایس او پیز) کے ساتھ اپنے گاہکوں کو یہ سروس گھر پر فراہم کرنا شروع کر دی ہے۔
ذیشان جہانگیر ایونٹ منعقد کرنے والی کپمنی کے مالک ہیں، اُن کے مطابق لاک ڈاون کے دوران اُن کو دن میں تین سے چار ایونٹس کرنے کو مل رہے ہیں۔ جس میں وہ لوگوں کے گھروں پر موقع کے حساب سے انتظامات کرتے ہیں۔
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ذیشان نے بتایا کہ اُنہوں نے خود سے کمپنی کے لیے کچھ ایس او پیز سیٹ کیے ہیں، جس میں وہ ایونٹ میں استعمال ہونے والی تمام اشیا کو استعمال کرنے سے پہلے اور بعد میں ڈٹرجنٹ سے صاف کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کے ہر ملازم کو کام کے دوران منہ پر ماسک اور ہاتھوں پر دستانے پہننا ضروری ہے۔
ذیشان کے مطابق حکومت کی جانب سے لاک ڈاون کے آغاز میں انتہائی سختی کی گئی تھی۔ تاہم اب کہا گیا ہے کہ کم سے کم لوگوں کے ساتھ ایونٹ کا گھر میں انعقاد کیا جا سکتا ہے۔ جس میں 15 سے زیادہ افراد شرکت نہیں کر سکتے۔
اُنہوں نے مزید بتایا ہے کہ اُن کی کمپنی نے اب تک جتنے بھی ایونٹ کے انتظامات گھروں پر کیے ہیں وہ صرف 10 سے 12 افراد کے حساب سے کیے گئے۔
دیکھا جائے تو گھر پر ہی شادی کے ایونٹس محدود لوگوں کے ساتھ کرنے میں بے جا خرچے سے بھی بچا جاسکتا ہے اور صرف ایونٹ آرگنائزرز کو پیسے دے کر گھر میں شادی کی جا سکتی ہے۔
ذیشان جہانگیر نے بتایا کہ وہ ایونٹ کے حساب سے پیسے لیتے ہیں۔ مثلاً مہندی کے انتظامات کے وہ 20 ہزار لیتے ہیں، جبکہ نکاح اور منگنی کے 10 ہزار میں انتظامات ہو جاتے ہیں جو کہ موجودہ صورتِ حال میں انتہائی مناسب ہیں۔
ایک اور ایونٹ آرگنائزر روبی خالق کے مطابق لاک ڈاون کے دوران اُن کو دن میں کم سے کم بھی چار تقریبات مل رہی ہیں۔ ان میں سالگرہ، مایو، نکاح، مہندی اور رخصتی کے ایونٹس شامل ہیں۔
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے روبی نے بتایا کہ اُن کی ٹیم پہلے اُس علاقے میں جاتی ہے جہاں ایونٹ کا انتظام کرنا ہوتا ہے، پھر وہاں اپنے خرچے پر اُس گھر کو صاف کرتے ہیں، اور انتظامات میں استعمال ہونے والی اشیا کو بھی سینیٹائز کیا جاتا ہے۔
روبی کے مطابق ایونٹس زیادہ ملنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رمضان شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں۔ پھر ایک ماہ تک لوگ کم ہی ایونٹس کا انعقاد کریں گے۔
روبی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ عام حالات میں وہ شادی ہالز میں جا کر بھی ایونٹ کے مطابق انتظامات کرتے تھے۔ تاہم اب شادی ہالز بند ہیں، اور امید ہے کہ عید کے بعد ایس او پیز کے ساتھ شادی ہالز بھی کھول دیے جائیں گے۔
دوسری جانب کئی افراد ایسے ہیں جنہوں نے شادیوں کی تیاریوں کے لیے کئی لاکھ لگا رکھے ہیں اور وہ گھر میں محدود افراد کے ساتھ کسی بھی طرح کا ایونٹ کرنے کے حق میں نہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک شہری نے بتایا کہ اُن کی شادی گذشتہ ماہ 23 مارچ کو تھی، مگر لاک ڈاون کی وجہ سے شادی نہیں کی جا سکی۔ وہ اپنے گھر میں اکلوتے بیٹے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے گھر والے دھوم دھام سے شادی کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہ انتظار کرنے بھی تیار ہیں۔
خیال رہے حکومت کی جانب سے لاک ڈاون میں 30 اپریل تک توسیع کر دی گئی تھی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں