Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب ٹرینڈ نے ’برگرز اور پینڈوؤں‘ کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا

بچپن دیہات میں گزرے یا شہر میں حسین یادیں ساری عمر ساتھ رہتی ہیں (فوٹو سوشل میڈیا)
معمول کا ہنسی مذاق ہو یا سنجیدہ موضوع کو چٹکیوں میں اڑانا، سوشل میڈیا صارفین ناصرف ہنسی مذاق کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے بلکہ اگر موقع نہ ملے تو خود بنا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی ٹائم لائنز پر بھی اس وقت کچھ ایسا ہی ہوا جب سوشل میڈیا پر عموما سیلبرٹیز کی جانب سے سوال و جواب کے لیے استعمال ہونے والے انداز کو کاپی کر کے برگرز اور پینڈوؤں‘ کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔
پاکستان کے متعدد علاقوں میں دیہات کے مکینوں یا سادگی بھر دیہی مزاج رکھنے والوں کو کبھی مزاقا تو کبھی غصے کے اظہار کے لیے پینڈو کہا جاتا ہے، جب کہ شہروں کے مکین جو عام زندگی کی روزمرہ حقیقتوں سے کم کم واقف ہوں انہیں برگر کا متبادل نام دیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین نے برگر سے پوچھو پر گفتگو شروع کی تو یہ کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر روایتی کھیلوں، دیہی طرز زندگی، گزرے وقتوں میں زیراستعمال مشہور اشیا تک جا پہنچی۔
نیک روح نامی ایک صارف نے جدید سنیکس سے قبل کریانہ سٹورز پر سب سے زیادہ فروخت ہونے والی چیزوں میں سے ایک فرائی کیے ہوئے چاولوں کو گڑ میں ملا کر گول یا مستطیل شکل میں جوڑ کر بنائے گئے ’مرنڈے‘ کا ذکر کیا تو پوچھا کہ ’مرنڈا کی انگریزی بتاؤ؟‘۔

یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ کون اس سوال کا جواب دے کر برگر کہلانے سے بچا اور کسے پینڈو کا لقب ملا البتہ عاکفہ نامی ایک صارف نے جواب میں کہا کہ وہ برگر تو نہیں البتہ جواب دے سکتی ہیں کہ اسے پفڈ رائس (کیک) کہتے ہیں۔
جس پر انہیں سننا پڑا کہ یہی تو وہ جواب ہے جو کسی برگر نے دینا ہوتا ہے۔ جواب الجواب میں عاکفہ کو قہقہے کے سمائلی پر اکتفا کرنا پڑا۔

یہ کم کم ہی ہوتا ہے کہ تفریح کا ذکر ہو تو اور اس میں کھیل نہ آئیں، اس بار بھی بہت سے صارفین روایتی کھیلوں کے ساتھ ساتھ موجودہ رائج کھیلوں کے دیسی طریقوں کا ذکر کیے بغیر نہ رہ سکے۔
سید احسن نامی ایک صارف نے تصویر شیئر کی جس میں کرکٹ بیٹ کے سامنے پانچ لائنیں دکھائی گئی تھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ سنگل وکٹ میچ سے قبل کی یہ سرگرمی کیا ہے؟
بیٹنگ کی باری طے کرنے کے لیے لگائی جانے والی لائنوں پر مشتمل تصویر کو انہوں نے بچپن کی خوبصورت یادوں سے تعبیر کیا۔

فیضی راجپوت نامی صارف نے دیہی اور شہری زندگی کے بچپن سے خاص سمجھے جانے والے مختلف کھیلوں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے پوچھا کہ کون ان کھیلوں کا نام جانتا ہے؟

ایک صارف نے کھیلتی بچیوں کی ایک ڈرائنگ شیئر کرتے ہوئے پوچھا کہ اس کھیل کا نام بتائیں۔ تو کچھ صارف ایسے بھی تھے جو ان کھیلوں کے متعلق معلومات کو مزے سے گزرے بچپن کی نشانی تک قرار دیتے رہے۔

کھانے پینے کی چیزوں اور دیسی کھیلوں یا ولایتی کھیلوں کے دیسی طریقوں سے متعلق گفتگو آگے بڑھ کر محاوروں تک پہنچی تو سوشل میڈیا صارفین یہاں بھی دم لینے کو آمادہ دکھائی نہیں دیے۔
ابو عمر نامی ایک صارف نے لکھا ’ونگیاں لتاں تے پلس مقابلہ‘ کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟‘ تو وقاص امجد نے غصے کے اظہار کے لیے استعمال ہونے والی پنجابی اور انگلش تراکیب کا موازنہ کیا تو دوسروں سے بھی رائے لی کہ کیا کہنے میں زیادہ مزہ ہے؟

دیہی طرز زندگی یا دیسی لائف سٹائل کا ذکر بھی گفتگو کا حصہ بنا رہا۔ لاک ڈاؤن 33 نامی صارف نے ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے پوچھا ’یہ عورتیں دیوار کے ساتھ کیا کر رہی ہیں؟‘

آٹھ آٹھ آنے (پچاس پیسے) والی بلکہ کبھی کبھار تو انعام کے طور پر مفت ملنے والی بچپن کی کہانیاں اور ان کی کتابیں بھی ٹائم لائنز کی زینت بنیں۔

گوہر زمان دیسی طور طریقوں کے بجائے قرنطینہ کے دوران ایک انجینئر کی کاوش سامنے لائے تو خالص روایتی ڈش سجی بنانے کے لیے لیتھ مشین استعمال کرنے کی ویڈیو کے ذریعے دوسروں کو محظوظ ہونے کا موقع دیا۔
سوشل میڈیا صارفین تفریح کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن کورونا وائرس کے بعد کی صورت حال میں گھروں تک محدود صارفین نے برگرز سے پوچھنے کی آڑ میں خود سے اتنے سوال و جواب کیے کہ چند ہی گھنٹوں میں اسے ٹرینڈز لسٹ کا ایسا عنوان بنا دیا جو خاصی دیر تک سرفہرست رہا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: