یکم اپریل سے پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
حکومتِ پاکستان نے خام تیل کی درآمد پر گذشتہ ماہ عائد کی گئی پابندی کا حکم نامہ واپس لیتے ہوئے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو درآمدات کی اجازت دے دی ہے۔
اس فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ ملک میں جاری لاک ڈاؤن کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت معمول پر آرہی ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ 'عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے اثرات ملکی صارفین تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔'
پیٹرولیم ڈویژن نے آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کے نام لکھے گئے خط میں اس بات کا حوالہ دیا کہ 'یکم اپریل سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات بالخصوص پیٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی کھپت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی بنیادی وجہ فصلوں کی کٹائی کے سیزن کا آغاز ہے۔'
خط کے مطابق 'اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اپنی استعداد کو مدِنظر رکھتے ہوئے خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات درآمد کریں تاکہ آئل ریفائنریز پوری صلاحیت کے ساتھ کام جاری رکھ سکیں۔'
عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح 15 سے 20 امریکی ڈالر فی بیرل پر آچکی ہیں، تاہم ماہرین توانائی کا کہنا ہے کہ ملکی صارفین کو اس کمی کا فائدہ ملنے میں ایک سے زائد عوامل کار فرما ہیں اور اس میں وقت لگ سکتا ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ اور صنعتیں بند ہونے سے ملک میں تیل کی کھپت میں خاطر خواہ کمی آئی تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے خام تیل کی برآمدات پر وقتی پابندی لگا دی گئی تھی، تاہم لاک ڈاؤن میں نرمی، صنعتیں کھلنے اور فصلوں کی کٹائی کا سیزن شروع ہونے سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
آئل مارکیٹنگ اور ریفائنری کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'خام تیل کے سودے کم سے کم تین ماہ پہلے ہوتے ہیں، لہٰذا اپریل اور مئی میں مقامی مارکیٹ میں فروخت ہونے والی پیٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے سودے جنوری کے قریب ہو چکے تھے، لہٰذا قیمتوں میں فوراً کمی ممکن نہیں۔'
ان کے بقول 'لاک ڈاؤن کے نتیجے میں تیل کی کھپت کم ہونے سے مزید خام تیل کی درآمد روکنا پڑ گئی، یعنی ریفائنری اور ذخائر میں جگہ کی کمی کے باعث اس مال کی درآمد بھی روکنا پڑی جس کا سودا ہو چکا تھا، ایسے میں عالمی مارکیٹ کی کم قیمتوں کا اثر پڑنے میں کچھ ماہ لگ سکتے ہیں، لیکن قیمتوں میں کمی ہوگی ضرور۔'
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی قدر بھی ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر اثر انداز ہوگی اور عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں کمی کا اثر اس انداز میں عوام تک نہیں پہنچ پائے گا جیسا روپے کی قدر مستحکم ہونے کی صورت میں ہو سکتا تھا۔
واضح رہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح تک پہنچ گیا تھا اور ابھی بھی صورت حال مستحکم نہیں ہوئی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ملک میں قائم ریفائنریاں عام حالات میں پیٹرولیم مصنوعات کی ملکی طلب کا محض 40 سے 50 فیصد پورا کر پاتی ہیں جبکہ دیگر تیار مصنوعات کی صورت میں درآمد کرنا پڑتا ہے۔
وزارت پیٹرولیم کے ذرائع کے مطابق ملک میں پیٹرولیم کی یومیہ کھپت 10 لاکھ بیرل کے قریب ہے جبکہ ملک میں قائم تمام ریفائنریاں یومیہ ساڑھے چار لاکھ بیرل خام تیل صاف کر سکتی ہیں، جس میں بائیکو ڈیڑھ لاکھ بیرل یومیہ اور این آر ایل ریفائنری ایک لاکھ بیرل یومیہ کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پیٹرولیم ڈویژن نے اپنے ہدایت نامے میں خام تیل کے علاوہ پیٹرول اور ڈیزل کی درآمد کا بھی کہا ہے۔ ماہرین کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی مانگ میں حالیہ اضافہ معمول کے مطابق ہے اور ہر سال فصل کی کٹائی کے سیزن میں ایسا ہوتا ہے۔
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی پہلے ہی اس بات کی منظوری دے چکی ہے کہ آئل مارکیٹنگ اور ریفائنریز کو روپے کی قدر میں گراوٹ اور قیمتوں میں کمی سے ہونے والے نقصان کا ازالہ مقامی مارکیٹ میں ماہانہ بنیادوں پر پیٹرولیم کی قیمتوں کے تعین میں کیا جائے گا۔
پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں کمی کے باعث بائیکو اور نیشنل ریفائنری لمیٹڈ نے پیداوار روک لی تھی جبکہ پی آر ایل اور اے آر ایل بھی محدود پیمانے پر کام کر رہی تھیں، تاہم اب خام تیل کی درآمد پر پابندی ہٹنے کے بعد تمام ریفائنریز نے پیداوار کا آغاز کر دیا ہے۔